ترکیہ اور شام میں زلزلے سے اموات 24 ہزار سے تجاوز کرگئیں

انقرہ (صباح نیوز)ترکیہ اور شام میں زلزلے سے اموات کی تعداد 24 ہزار سے تجاوز کرگئی، ایک لاکھ سے زائد افراد زخمی ہیں، 6 روز کے دوران 1500 سے زائد آفٹر شاکس آچکے ہیں، گرنے والی ہزاروں عمارتوں کے ملبے میں دبے افراد کو نکالنے کیلئے ریسکیو آپریشن جاری ہے، 100 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی کئی افراد کو زندہ نکال لیا گیا، دبے ہوئے افراد کے زندہ بچنے کی امیدیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جارہی ہیں۔

ترکیہ اور شام میں 6 فروری کی صبح آنے والے زلزلے کے باعث تباہ ہونے والی عمارتوں میں دبے افراد کو نکالنے کا کام جاری ہے، دونوں ممالک میں اب تک 24 ہزار سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔امدادی سرگرمیوں میں پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔حکام اور طبی عملے کے مطابق ترکیہ میں 20 ہزار 665 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ شام میں ہلاکتوں کی تعداد 3 ہزار 553 ہے، دونوں ممالک میں تصدیق شدہ اموات کی تعداد 24 ہزار 218 تک پہنچ گئی ہے۔دوسری جانب شام میں اب تک 3 ہزار 600 سے زائد اموات کی تصدیق کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ سرد موسم نے لاکھوں متاثرین کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے جبکہ بہت سے لوگوں کو امداد کی اشد ضرورت تھی۔

عالمی ادارے نے کہا ہے کہ زلزلے کے بعد دونوں ممالک میں کم از کم 8 لاکھ 70 ہزار افراد کو فوری طور پر خوراک کی ضرورت ہے، صرف شام میں 53 لاکھ بے گھر افراد کو فوری پناہ درکار ہے۔تباہ کن زلزلے کے دوران اپنے گھر کے ملبے کے نیچے پھنسی ہوئی شامی خاتون نے جس بچی کو جنم دیا تھا اس کا نام آیا رکھا گیا ہے، جس کا عربی میں مطلب خدا کی نشانی ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نوزائیدہ بچی کے والدین اور اس کے تمام بہن بھائی قیامت خیز زلزلے کی نذر ہوگئے، بچی کی کفالت اب اس کے والد کے چچا کریں گے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے جمعے کو شام کے متاثرہ علاقے، جہاں کرد جنگجو اور شامی باغیوں کا کنٹرول ہے، میں انسانی ہمدردی کے تحت رسائی دینے کی درخواست کی۔

کالعدم کردستان ورکرز پارٹی جسے انقرہ اور اس کے مغربی اتحادی دہشت گرد گروہ قرار دیتے ہیں، نے امدادی سرگرمیوں میں آسانی کے لیے عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔باغیوں کے زیر قبضہ شمال مغربی شام میں تقریبا 40 لاکھ افراد انسانی امداد پر انحصار کرتے ہیں لیکن تین ہفتوں میں حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں سے کوئی امداد نہیں پہنچی ہے۔ترکیہ کے علاقے دیارباکر میں 103 گھنٹے بعد ماں بیٹے کو ملبے سے ریسکیو کرلیا گیا، تو اک بار پھر امید بندھ گئی۔کہارامانمارس میں شدید زلزلے سے ٹرین کی پٹریاں اکھڑ گئیں، سڑکوں کا بھی برا حال ہوگیا، امدادی کاموں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔شام کی وزرا کونسل نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے دیا۔

صدر بشار الاسد نے حلب کے اسپتال میں زلزلہ متاثرین سے ملاقات کی، رضا کار تنظیم کے اہلکاروں نے 2 ننھی بہنوں کو بچالیا۔زلزلہ زدہ ادلب کے نواحی گاں کے قریب ایک چھوٹا ڈیم ٹوٹ گیا، پانی نے گھروں اور کھیتوں میں داخل ہوکر شہریوں کیلئے مزید مشکلات کھڑی کردیں۔ترکیہ کے جنوبی وسطی علاقے میں آباد انطاکیہ کا شہر ہزاروں سال پرانی تزیب کا حامل ہے لیکن اس شہر کا بہشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔عرب نیوز چینل الجزیرہ کے مطابق شام کے شہر حلب میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ سرکاری سطح پر آنے والے ماہرین نے شہر کی کم و بیش تمام ہی عمارتوں کو مخدوش قرار دے دیا ہے ۔۔۔

ترکیہ میں ہوٹل کے ملبے میں کالج کی والی بال ٹیم کی تلاش؛ 3 لاشیں برآمد
 6 افراد زندہ نکالے گئے
 
ترکیہ میں ریسکیو ٹیم ایک ہوٹل کے ملبے میں کالج کی والی بال ٹیم کو تلاش کر رہے ہیں اور اب تک تین لاشیں برآمد ہوچکی ہیں۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق شمالی قبرص کے علاقے ادیامان میں واقع آئس ہوٹل بھی زلزلے میں ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ اس ہوٹل میں کالج کی والی بال ٹیم اور ان کے اساتذہ پر مشتمل 39 افراد کا گروپ قیام پذیر تھا۔سات منزلہ ہوٹل میں فاماگوستا ترک معارف کالج  کی لڑکے اور لڑکیوں کی والی بال ٹیم کے اساتذہ کے ساتھ موجودگی کی اطلاع پر ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

کھلاڑیوں کے اہل خانہ بھی ملبے کے ڈھیر کے نزدیک مایوسی کے عالم میں بیٹھے ہیں۔ریسکیو ٹیم نے ملبے کے ڈھیر سے تین لاشیں نکالی ہیں جن میں سے دو اساتذہ اور ایک طالب علم کی ہے۔ 2 افراد کو زندہ بھی نکالا گیا ہے جب کہ 4 افراد اپنی مدد آپ کے تحت پہلے ہی ملبے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ترکیہ میں زلزلہ 6 فروری کو آیا تھا اور اتنے دن گزر جانے کے باوجود اب ہوٹل کے ملبے سے کسی کے زندہ ملنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ ترکیہ اور شام میں آنے والے زلزلے میں مجموعی ہلاکتیں 24 ہزار سے تجاوز کرگئی ہیں ۔۔

ترکی زلزلہ: ملبے میں دبے شخص کی ریسکیو آپریشن کے دوران سورہ بقرہ کی تلاوت
متاثرہ شخص کو 104 گھنٹے بعد بحفاظت نکال لیا گیا

ترکی میں آنے والے زلزلے سے تباہ عمارت کے ملبے میں دبے شخص کو 104 گھنٹے بعد زندہ نکال لیا گیا، ریسکیو آپریشن کے دوران متاثرہ شخص سورہ بقرہ کی آخری آیات کی تلاوت کرتا رہا۔ترکیہ میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں جہاں ابھی بھی ریسکیو اورریلیف کا کام جاری ہے ۔ وہیں 104 گھنٹوں بعد ملبے تلے دب جانے والا 47 سالہ شخض عثمان کو بھی عمارت کے ملبے سے نکال لیا گیا۔ ترکیہ کے صوبے کرامنمش میں 47 سالہ عثمان کو جب ملبے سے نکالا گیا تو اس دوران کو سورہ البقر کی آخری آیات کی تلاوت کر رہا تھا۔۔

ترکی زلزلے نے ننھے بچوں کی شناخت تک چھین لی

ترکی زلزلے نے ننھے بچوں کی شناخت چھین لی،برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق ترکی کے اڈانا سٹی ہسپتال میں داخل زخمی بچوں میں بعض اتنے کم عمر ہیں کہ انھیں خود اندازہ بھی نہیں کہ ان کا کتنا نقصان ہو چکا ہے۔ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ڈاکٹرز کو چھ ماہ کی ایک زخمی بچی کو بوتل سے دودھ پلاتے ہوئے دیکھا گیاجس کے والدین کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ یہاں ایسے مزید سینکڑوں بچے موجود ہیں جن کے والدین یا تو زلزلے میں ہلاک ہو چکے ہیں یا لاپتہ ہیں۔زلزلے نے پہلے ان کے گھر تباہ کر دیے اور اب ان سے ان کی شناخت بھی چھین لی ہے۔ڈاکٹر نرسہ کیسکن نے آئی سی یو میں داخل بچی کا ہاتھ تھام لیا جسے اب صرف اس کے بستر پر لگے ٹیگ سے جانا جاتا ہے جس پر اس کی شناخت گمنام لکھی ہے۔

اس بچی کی کئی ہڈیاں ٹوٹیں ہوئی ہیں، اور اس کا چہرہ بری طرح زخمی ہے جبکہ آنکھ پر سیاہ نیل ہیں تاہم وہ ہمیں دیکھ کرمسکراتی ہے۔ہسپتال کے ماہر امراض اطفال اور ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر کیسکن نے زخمی بچی سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں یہ توعلم ہے کہ یہ بچی کہاں سے ملی اور یہاں تک کیسے پہنچی تاہم اس کا پتہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہماری تلاش ابھی تک جاری ہے۔ان میں سے زیادہ تر ایسے بچے ہیں جنھیں دوسرے علاقوں میں زلزلے سے تباہ شدہ عمارتوں سے نکال کر اڈانا کے ہسپتال منتقل کیا گیا۔زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بہت سے دوسرے طبی مراکز یا تو منہدم ہو گئے ہیں یا ان کی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے ایسے میں اڈانا ایک امدادی مرکز میں تبدیل ہو گیا ہے۔

امدادی کارروائیوں کے دوران نوزائیدہ بچوں کو اسکندرون شہر کے ایک ایسے ہسپتال کے زچگی وارڈ سے یہاں پہنچایا گیا جو زلزلے سے متاثر ہو کر بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔ترکی کے صحت کے حکام کے مطابق ملک میں زلزلے سے متاثرعلاقوں میں اس وقت 260 سے زیادہ ایسے زخمی بچے موجود ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔ اس تعداد میں ابھی مزید اضافے کا خدشہ موجود ہے کیونکہ مزید علاقوں تک رسائی ہونے سے بے گھر ہونے والوں کا تناسب بھی بڑھ رہا ہے۔ڈاکٹرز کے مطابق بہت سے بچے صدمے اور خوف کے باعث بات نہیں کرپا رہے،برطانوی نشریاتی ادارے کا رپورٹرڈاکٹر کیسکن کے ساتھ زخمیوں سے بھرے ایک برآمدے میں چل رہا تھا جہاں بچ جانے والے زخمی افراد ٹرالیوں پر لیٹے تھے جبکہ کچھ کو ایمرجنسی ایریا میں بستروں پرکمبل اوڑھا کر رکھا گیا تھا۔

ایک ایسی بچی سے بھی ملے جس کی عمر ڈاکٹروں کے مطابق پانچ سے چھ سال ہے۔ وہ بچی سو رہی تھی اور اسے دوائی قطروں کی صورت میں اس کی کلائی سے بندھی ڈرپ کے ذریعے دی جا رہی تھی۔طبی عملے کے مطابق اس چھوٹی بچی کے سرمیں گہری چوٹ اور متعدد فریکچر ہیں۔ جب ڈاکٹر سے پوچھا کہ کیا وہ انھیں اپنا نام بتانے میں کامیاب رہی؟ میرے اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ایلیکنور بینلے سیکر کا جواب نفی میں تھا۔نہیں، یہ بچی صرف آنکھوں سے رابطہ اور اشارے کر پاتی ہے۔ بہت سے بچے صدمے کی وجہ سے بات تک نہیں کر پا رہے، وہ اپنے نام جانتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ جب ایک سے دو روز میں ان کی حالت بہتر ہو گی تو ہم ان سے بات کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔محکمہ صحت کے اہلکار کا کہنا ہے کہ وہ ان شناخت سے محروم بچوں کے گھروں اور والدین کے پتے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اب وہاں اکثرعمارات کے بجائے محض کھنڈرات ہیں۔ترکی کے سوشل میڈیا پر بھی گمنام بچوں سے متعلق پیغامات بھرے ہوئے ہیں جہاں موجود تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ تباہ شدہ عمارتوں میں وہ بچے کس منزل پر رہتے تھے۔

بعض پیغامات میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ غالبا انھیں بچا لیا گیا ہو گا اور طبی امداد کے لیے ہسپتال لے جایا گیا ہو گا۔ڈاکٹر کیسکن بھی متاثرین میں سے ہیں جنھوں نے زلزلے میں اپنے رشتہ داروں کو کھو دیا اور آفٹر شاکس کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ ہسپتال میں پناہ لی۔ جب  ان سے پوچھا گیا کہ وہ اس صورت حال کا کیسے مقابلہ کر رہی ہیں۔ تو ان کا کہنا تھا کہ میں ٹھیک ہوں، اور ٹھیک رہنے کی ہی کوشش کر رہی ہوں کیونکہ ان(بچوں) کو واقعی ہماری ضرورت ہے۔ لیکن میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میرے پاس اب بھی میرے بچے موجود ہیں۔ ایک ماں کے لیے اپنے بچے کو کھونے سے بڑا دکھ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ آگے وارڈز میں بعض بچے اپنے والدین کے واپس آنے کے منتظر ہیں۔ کچھ بچوں کو ان کے خاندان سے دوبارہ ملا دیا گیا ہے تاہم ابھی بھی بہت سے زلزلے کے گمنام بچے ہی ہیں۔