مروجہ قوانین کے تحت سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جوابدہی ناگزیر ہے، ڈاکٹر حفیظ پاشا


اسلام آباد(صباح نیوز)مروجہ قوانین کے تحت سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جوابدہی ناگزیرہے اور جوابدہی کا یہ اختیار وزیر اعظم کے تحت وفاقی حکومت کو حاصل ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے متعلقہ وزرا کے ساتھ تعاون کا ر کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔

ان خیالات کا اظہار سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی(ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام 24 ویں پائیدار ترقی کانفرنس کے ایک سیشن کے دوران اپنی گفتگو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی شرح جانچنے کے نظام کو فعال و مثر ہوناچاہئے تاکہ مختلف طبقات پر مہنگائی کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر ساجد امین نے اس موقع پر کہا کہ مہنگائی کا ہدف مرکزی بینک کی بجائے سٹیٹ بینک کو طے کرنا چاہئے جبکہ مرکزی بینک کو تھنک ٹینکس اور متعلقہ وزرا کے ساتھ مسلسل مشاورت کرنی چاہئے۔

سیشن کے دوران بورڈ آف انوسٹمنٹ خیبر پختونخوا کے سربراہ حسن داد بٹ، ڈاکٹر وقار احمد اور دوسرے مقررین نے بھی اظہار خیال کیا اور موضوع کے مختلف پہلوں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ایس ڈی پی آئی اور جی آئی زی کے تحت کووڈ۔19بحالی، تعلیم برائے کمزور طبقات کے موضوع پر منعقدہ نشست کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے ادارہ تعلیم و آگاہی کی بیلا رضا جمیل نے کہا کہ کچی آبادیوں میں رہنے والے کمزور طبقات کو تعلیمی شعبے کے حوالے سے کورونا وبا کے بدترین اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔موجودہ صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ڈیجیٹل لرننگ کے بارے میں آگاہی اور رسائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

کمشنر افغان ریفیوجیز عباس خان نے کہا کہ پاکستان گزشتہ پانچ دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے اور تعلیم تک رسائی اس دوراب سب سے بڑا چیلینج بن کر سامنے آیا۔فجر رابعہ پاشا نے معاشی طور پر کمزور طبقات میں لڑکیوں کو درپیش تعلیمی مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے وبا کے دوران ڈیجیٹل آلات تک رسائی کے حوالے سے بڑا صنفی عدم تفاوت دیکھنے میں آیا اور اس باعث لڑکیوں کو تعلیمی سہولتوں سے محروم ہونا پڑا۔شہباز طاہر ندیم نے شرکا کو بتایا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے آن لائن سکول متعارف کرائے تاکہ تعلیم کو بچوں کے لیے مثر بنایا جا سکے۔کثیر جہتی کی بدولت عدم برابری کا سدباب کے موضوع پر منعقدہ سیشن کے دوران دانشور جامی چانڈیو نے زور دیا کہ پاکستان کی بقا کے لیے کثیر جہتی کا احترام اور فروغ ناگزیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ثقافتی کثیر جہتی کو معاشی مواقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔زیبسٹ کے ڈین ڈاکٹر ریاض احمد نے کہا کہ کثیر جہتی اور جمہوریت سے انکار ایک افسوسناک رویہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ رویہ پاکستان میں انتہا پسندی کو عام کرنے کاباعث بن رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ واحد قومی نصاب غیر آئنی اور 18ویں ترمیم کی روح کے منافی ہے۔وباء کے بعد بحالی کے موضوع پر منعقدہ سیشن کے دوران رورل سپورٹ پروگرامز نیٹ ورک کے چئیرمین شعیب سلطان خان نے کہا کہ کورونا وبا کے مقابلے کے لیے ابتدائی رود عمل اچھا تھا لیکن شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں مثر رد عمل کے حوالے سے چیلینج زیادہ سنگین رہے۔ڈاکٹر معصومہ حسن نے کہا کہ ہماری حکومتوں نے متعلقہ عالمی کنونشنز جو مثبت تبدیلی کا ابعث بن سکتے تھے، کے قواعد پر عمل درآمد نہیں کیا۔

ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ کئی چیلنجز کے باوجود ن نوجوانوں کی بااختیاری کے حوالے سے امید کی کئی کرنیں موجود ہیں۔سیشن کے دوران رکن پنجاب اسمبلی عارفہ خالد پرویز نے بھی اظہار خیال کیا۔پاکستان میں غربت کے خاتمے سے متعلق کاوشوں کے موضوع پر منعقدہ سیشن کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیپٹن سید احمد نواز نے شرکا ء کو بتایا کہ پاکستان میں اس وقت کئی ایسے پروگرام چل رہے ہیں جن کا مقصد غریب آبادی کی زندگی میں بہتری لانا ہے۔سعید محمد مصطفے نے کہا کہ سماجی تحفظ کا نظام کا بنیادی مقصد غربت کا خاتمہ ہے۔

راشد باجوہ نے اس موقع پر کہا کہ سماجی تحفظ انتہائی غربت سے نمٹنے میں ہی زیادہ مثر ثابت ہو سکتا ہے۔پی پی اے ایف کی سامیہ لیاقت علی نے صحت اور تعلیم پر توجہ دے کر غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔فدا محمد نے بھی سیشن کے دوران موضوع کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی۔بعد از عاملی ماحولیاتی کانفرنس ترجیحات کے حوالے سے منعقدہ سیشن کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلیاں ملک امین اسلم نے شرکا وک گبتایا کہ پاکستان کی قومی یقین دہانیاں شفاف توانائی پر توجہ اور فطری حل ساامنے لانے پر استوار ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان سیلابی پانی کو زمینی پانی کے ذخائر بہتر بنانے کے لیے استعمال میں لا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے دوران سب سے زیادہ مہمان پاکستان کے پویلین میں آئے۔اس کے علاوہ ہم نے 25 ذیلی سرگرمیوں کے علاوہ 50دو طرفہ اجلاسوں کا اہتمام کیا جس میں عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے نمائندوں کے ساتھ ہونے والے اجلاس بھی شامل ہیں۔ملک امین اسلم نے کہا کہ پاکستان کو مزید ایک سال کے لیے عالمی ماحولیاتی کانفرنس کی نائب صدارت دی گئی ہے اور 8انتہائی اہم کمیٹیوں کا حصہ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ برس پاکستان ایشیا پیسفک گروپ اور جی 77ممالک کی سربراہی کرے گا۔ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ نجی شعبے کا ماضی میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے نظر انداز رکھا گیا جبکہ پائیدار ترقی کارپوریٹ ایکشن کے بغیر ممکن نہیں۔عامر پراچہ، حسین علی طالباور فاطمہ ارشد نے ماحولیاتی تبدیلویں کے حوالیس ے یونی لیور کی سرگرمویں کی تفصیل سے شرکا کو آگاہ کیا۔

رکن قومی اسمبلی رومینہ خورشید عالم اورنوید قمر نے بھی موضوع کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی۔گرین ریکوری آف پاکستان کے موضوع پر منعقدہ سیشن کے دوران ڈپٹی جرمن ایمبسیڈر فلپ ڈچمین، جی آئی زی کے علی زین بنتوالہ ڈاکٹر سردار معظم، سید مجتبے حسن، سائمن ملر، مائکل ولیم سن اور کنزا حسن نے قابل تجدید توانائی کی ضرورت، اہمیت اور املانات کی مختلف جزئیات پیش کیں۔

چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں پر وبا کے اثرات کے حوالے سے سیشن کے دوران آئی ڈی آر سی کے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر آرندیا چترجی نے کہا کہ لاک ڈاں کے معیشتوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے اور عام آدمی کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا۔فہیم سردار، محمد عمر سلیم بھٹی اور دوسرے مقررین نے کہا کہ وبا کے بعد سامنے آنے والے نئے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں ہم ناکام رہے۔پاکستان میں ٹوبیکو کنٹول کے حوالے سے سیشن کے دوران مقررین نے کہا کہ تمباکو نوشی کی جدید شکلیں بھی صحت کے حوالے اس کی روایتی شکلوں جتنی ہی مضڑ صحت ہیں جن کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔