لاہور (صباح نیوز)وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا مخالف نہیں ہوں، دعا ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوں مگر خبردار کررہا ہوں کہ کہیں ہم استعمال نہ ہوجائیں۔ لاہور میں خواجہ محمد رفیق شہید کی برسی پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ دس پندرہ برس کی تاریخ دیکھیں تو صرف (ن) لیگ نے مذاکرات میں پہل کی لیکن پی ٹی آئی نے ہماری کسی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہاکہ شہباز شریف مذاکرات کی دعوت دیتے تو بدتمیزی کی جاتی تھی، سمجھ نہیں آتی کہ پچھلے 15دن میں کون سا تعویذ نکل آیا کہ مذاکرات ہورہے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہاکہ 2014ء کے مذاکرات میں عمران خان نے سڑک مانگی ہم نے بنادی، ہم اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں مذاکرات کی پیشکش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ پہلا سیاستدان ہے جو امریکا کی منت ترلے کررہا ہے کہ مجھے بچا۔پہلے کہتے تھے کہ غلامی نامنظور، اب کہتے ہیں غلامی سو بار منظور۔ انہوں نے کہاکہ دو اڑھائی سال تک صرف یہی کہا گیا کہ ہم صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہی مذاکرات کریں گے، جب کوئی طاقت کی پوزیشن سے مذاکرات کرے تو اس کی سنجیدگی پر شبہ نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب کوئی کمزور ہو، مار کھایا ہوا ہو تو اس سے مذاکرات کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ گزشتہ دو برس تکرار کی گئی کہ حکومت کی مذاکرات کرنے کی اوقات ہی نہیں۔
انہوں نے کہاکہ دو آمروں نے اقتدار کو طول دینے کے لیے امریکا کی غلامی قبول کی جس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں، پوری دنیا میں حالات ٹھیک ہوگئے مگر ہمارے ہاں دہشتگردی جاری ہے۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان کے دور میں کالعدم ٹی ٹی پی کے 40ہزار لوگوں کو واپس لا کر بسایا گیا، جس کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں، افغان جہاد سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ویت نام کی جنگ جاری تھی اور مذاکرات بھی ہوتے رہے مگر ان میں کوئی سنجیدگی تھی، میں مذاکرات کے حق میں ہوں مگر خیال رکھیں کہیں رل نہ جائیں، ایک شخص کی تاریخ ہے پی ٹی آئی والا ہی مجھے بتادے اس شخص نے زندگی میں کسی سے وفا کی ہے؟ جنہوں نے ساری عمر اس کے ساتھ گزاری وہ ان کے جنازے میں گیا؟ وہ بیمار ہوئے ان سے ملنے گیا؟ عمران خان بندوں کو استعمال کرتا ہے میں وارننگ دیتا ہوں استعمال نہ ہوجائیں۔
انہوں نے کہا کہ میں خلوص کے ساتھ کہتا ہوں کہ مذاکرت کامیاب ہوجائیں، اسمبلی کے فلور پر میں نے کہا کہ سوشل کنٹریکٹ کیا جائے، فوج، بیورو کریسی، سیاست دان، عدلیہ، میڈیا یہ سب پاور سینٹرز ہیں انہیں بیٹھ کر بات کرنی چاہیے اور ملک کے مسائل حل کرنے چاہئیں، ن لیگ پی پی کئی دہائی دست و گریبان رہے مگر بی بی شہید اور نواز شریف نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کیے، مگر ہم دوبارہ ان دہائیوں میں نہیں گئے اور ایک سیاسی استحکام قائم کیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ہاتھوں پر خون ہے ان ہی کے لوگوں کے ہاتھوں خواجہ رفیق صاحب شہید ہوئے یہ بات ساری دنیا کو معلوم ہے مگر ایک رواداری اور لحاظ کو بڑھاوا دیا گیا، اگر کوئی طاقت کی پوزیشن میں ہوکر مذاکرت کرے تو اس کی سنجیدگی پر کوئی شک نہیں ہوتا لیکن جب بندہ جب گھرا ہوا ہو، مقدمات میں ہو رل رہا ہو اور مذاکرات کی بات کرے تو غور کرلینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ دو فوجی حکمرانوں نے امریکہ کی غلامی قبول کی جس کا نتیجہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں یہ دہشت گردی اسی وقت کی آئی ہوئی ہے، جنرل ضیاء نے امریکة کی طرف دیکھا اور ہم نے کرائے فوجی بن کر امریکہ کے لیے جنگ لڑی، اس کے بعد جنرل مشرف نے امریکہ کی طرف دیکھا، ان کے بعد عمران خان پہلا سیاست دان ہے جو امریکا کی منتیں کررہا ہے کہ مجھے بچا، ایسا کسی سیاست دان نے نہیں کیا، بھٹو نے بھی آنکھیں دکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا افغانستان جنگ سے کوئی واسطہ نہیں تھا مگر اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے اسے جہاد کا نام دیا گیا، ساری خطے میں امن ہوگیا سوائے پاکستان کے اور آج بھی اس کی قیمت جانیں دے کر ادا کررہے ہیں، عمران خان نے افغانستان سے واپس لاکر چالیس ہزار بندہ بسایا، سات ہزار تو یہ اپنے منہ سے کہتا ہے، یہ لوگ اب ملک میں تباہی پھیلاتے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہاکہ اب تو عمران خان کہتا ہے کہ شہباز شریف نے معیشت بحال کردی، یہ کیسی نئی بات ہے، باوجود اس کے کہ انہوں نے پوری کوشش کی کہ معیشت تباہ ہوجائے انہوں نے اپنے سب کو خطوط لکھے کہ پاکستان کو پیسے نہیں دیں، ان کے تمام خطوط کا رخ امریکا و برطانیہ کی طرف ہے، کل بھی ٹویٹ کیا تھاکہ جن ممالک نے فلسطین میں پچاس ہزار لوگ شہید کردئیے، ہمارے چار سے پانچ اسلامی ممالک برباد کردئیے بندہ ان سے مدد مانگ رہا ہے؟ ان کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے بھرے ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ مذاکرات میں تمام پاور سیکٹرز کو شامل کیا جائے صرف سیاست دان اس کا حصہ نہ بنیں ہم سیاست دانوں نے کبھی نہ کبھی بیساکھی استعمال کی ہے ، اس حمام میں سب ننگے ہیں، ہماری عدلیہ! جس ملک میں ایسی عدلیہ ہو وہ 75 سال چل جائے اللہ کا شکر ادا کریں، عدلیہ نے عدل کے نام پر قیامت برپا کی جتنا عدل کے نام کو پلید انہوں نے کیا کسی نے نہیں کیا، بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ جن ججوں نے کیا ان کے وارثوں کو معافی مانگنی چاہیے اور یہ روایت عدلیہ اور میڈیا کسی میں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا جج سولہ لاکھ روپے تنخواہ لیتاہے، ہمیں ایک لاکھ پچاس ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے جو ابھی بڑھی ہے، جس ملک میں عدلیہ سمجھوتہ کرے اس ملک کا اللہ حافظ ہے، لوگ صحیح کہتے ہیں کہ وکیل نہیں جج کرلو، ہم سب جیلوں میں تھے تو ہم پر کیس ہی کوئی نہیں تھا ہماری اگلے ہی دن ضمانت ہوسکتی تھی لیکن جج کمپرومائزڈ تھے۔