اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر نے دیوانی اورفوجداری کیسز کے جلد فیصلوں کویقینی بنانے کے لئے قوانین میں ترامیم کی تجویز دے دی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ وہ وفاقی اورصوبائی اسمبلیوں کی توجہ اس جانب مبذول کرواتے ہیں اوریہ فیصلہ ان پرچھوڑتے ہیں کہ وہ اپنی دانش کے مطابق اس معاملہ پرغور کریں ، جس کی فوری اورتیزرفتارانصاف کی فراہمی کے حوالہ سے بے پناہ اہمیت ہے اور براہ راست اثر ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سپریم کورٹ آفس کوہدایت کی ہے کہ حکمنامہ کی کاپی اٹارنی جنرل آف پاکستان، چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز اور سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کو بھجوانے کی ہدایت کی ہے تاکہ وہ عوام کے وسیع تر مفادمیں معاملہ پر اقتدار کے ایوانوں میں موجود ذمہ داران کی توجہ اس جانب مبذول کروائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل 2رکنی بینچ نے مسماة فریال عارف لطیف کی جانب سے عارف لطیف کے خلاف لاہور کے علاقہ ڈی ایچ اے 2کنال پر محیط بنگلے کی ملکیت کے حوالہ سے دائر 2 سول اپیلوں پر 31اکتوبر2024کوسماعت کی تھی۔لاہور ہائی کورٹ نے13اکتوبر2023اور30نومبر2023کے فیصلوں کے زریعہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے دعویٰ بحالی کی درخواست منظور کرنے کے اقدام کودرست قراردیا تھا۔ درخواست گزار کی جانب سے اسد جاوید اور مدعا علیہان کی جانب سے محمد اورنگزیب خان ڈاہا بطور وکیل پیش ہوئے تھے۔ بینچ نے13صفحات پرمشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا جوکہ جسٹس محمد علی مظہر نے تحریرکیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے فیصلے میں لکھا ہے کہ استحصال یا فائدے کے لئے صرف تنقید برائے تنقید کسی بھی نظام میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کے لئے فائندہ مند ثابت نہیں ہو گی بلکہ خرابیوں کو دور کرنے کے لئے ٹھوس اور مخلصانہ اقدامات اٹھانے ضروری ہیں جوکہ کیسز نمٹانے میں تاخیر کی وجہ بنتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کوڈ آف سول پروسیجر(سی پی سی)1908میں ترمیم کر کے کیسز کے مختلف مراحل میں مخصوص وقت میں نمٹانے کے حوالہ سے “کیس مینجمنٹ”کے زریعہ وقت متعین کرنے کی تجویز دی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے تجویز دی ہے کہ کیس میجمنٹ کو تمام عدلیہ میں نافذ کیا جائے جس پرعمل کرنے میںناکامی کی صورت میں مثالی جرمانے عائد کئے جائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے تجویز دی ہے کہ کوڈآف کریمنل پروسیجر (سی آر پی سی)1898میں بھی ترمیم کی جائے جس میں ٹرائل سے لے کر اپیل تک کے تمام مراحل کے لئے وقت کاتعین کیا جائے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تجویز کردہ چیپٹرز کو قانون میں شامل کرلیا جاتا ہے تواس سے نہ صرف قانون کے مطابق کیسز کے جلد فیصلوں میں مدد ملے گی بلکہ ہائی کورٹس کے لئے بھی ممکن ہوجائے گاکہ وہ اپنے ماتحت عدلیہ کی کارکردگی کاجائزہ لیں اوردیکھیں کہ ایک یاتین ماہ کے دوران کتنے کیسز نمٹائے گئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اگر مجوزہ ترامیم لائی جاتی ہیںاور ان پر غیر ملتزلزل اندازمیں سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے تو اس سے عوام کاعدلیہ پر اعتماد مضبوط ہو گا اوریہ اقدام ایک سنگ میل ثابت ہو گاجس سے وکلاء اور سائلین کی مدد سے کیسز کے جلد فیصلوں اور زیر التوادیوارنی اور فوجدراری مقدمات کوجلد نمٹانے میں مدد ملے گی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے فیصلے میں لکھا ہے کہ وہ وفاقی اورصوبائی اسمبلیوں کی توجہ اس جانب مبذول کرواتے ہیں اوریہ فیصلہ ان پرچھوڑتے ہیں کہ وہ اپنی دانش کے مطابق اس معاملہ پرغور کریں ، جس کی فوری اورتیزرفتارانصاف کی فراہمی کے حوالہ سے بے پناہ اہمیت ہے اور براہ راست اثر ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سپریم کورٹ آفس کوہدایت کی ہے کہ حکمنامہ کی کاپی اٹارنی جنرل آف پاکستان، چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز اور سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کو بھجوانے کی ہدایت کی ہے تاکہ وہ عوام کے وسیع تر مفادمیں معاملہ پر اقتدار کے ایوانوں میں موجود ذمہ داران کی توجہ مبذول کروائیں۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے دیوانی دعویٰ کی بحالی کے حوالہ سے ٹرائل کورٹ اور لاہورہائی کورٹ کے احکامات کے خلاف دائر درخواستیں ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردیں۔ بینچ نے ٹرائل کورٹ کوہدایت کی ہے کہ وہ 2013سے زیر التوا درخواستوں پر میرٹ پرجلد سماعت کرنے کے بعد جیسے بھی ہو 6ماہ کے دوران اندر فیصلہ کرے۔