اسلا م آباد(صباح نیوز) قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہاہے گوادر میں چین کے فوجی نہیں معاشی اڈے ہیںجو سب کے کھلے ہیں،برطانوی نشریاتی ادارے کے پروگرام میں مختلف سوالو ں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گوادر میں چین کے فوجی اڈے نہیں بلکہ اکنامک بیسز ہیں۔ امریکا اور روس کو بھی معاشی شراکت داری کی پیش کش کی ہے۔ اب ہمارے معاشی اڈے سب کے لیے کھلے ہیں۔
ڈاکٹر معید یوسف نے واضح کیا کہ ان کے ملک کی حکمت عملی اور سوچ میں بڑی تبدیلی آئی ہے جس میں اب جیو سٹریٹیجک کے بجائے جیو اکنامک ضروریات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جس کے لیے رابطوں کے مسائل کا حل اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے شراکت داری اہم ہوتی ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھاو آتا رہا ہے اور ‘بدقسمتی سے جب امریکہ کا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو پاکستان کو ایک طرف کر دیا جاتا ہے’ مگر پاکستان ‘امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات’ چاہتا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا یہ رست ہے کہ جو بائیڈن نے ابھی تک ایک برس کے دوران اپنے دفتر سے وزیراعظم عمران خان کو براہ راست فون نہیں کیا؟
معید یوسف نے جواب دیا کہ ‘جی یہ درست ہے اگر وہ کال کرنا چاہیں گے تو کریں گے اور اگر نہیں تو یہ ان پر ہے۔ یہ دونوں ممالک کے تعلقات کا عکاس نہیں۔ مجھے وضاحت کرنے دیں کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ہمیشہ اتار چڑھا وآتا رہا ہے۔ ہم بہت قریب آ جاتے ہیں، اتحادی بن جاتے ہیں لیکن بدقسسمتی سے جب امریکہ کا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو پاکستان کو ایک طرف کر دیا جاتا ہے۔’اس وقت دو طرفہ بہت اچھی بات چیت چل رہی ہے لیکن افغانستان کے معاملے پر عدم اعتماد اب بھی باقی ہے۔’معید یوسف نے کہا ‘ہم امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، یہ بہت بڑی برآمدی مارکیٹ ہے۔ ہمارے لاکھوں شہری وہاں رہ رہے ہیں، اور ہم اس تعلق کو خراب کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہم امریکہ کے ساتھ اس بارے میں بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ہاں عدم اعتماد ہے جو 22 ریپبلیکنز کی بات ہے یہ ان کی مقامی سیاست ہے اور میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔’اصل معاملہ یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ ہمارے ساتھ رابطے میں ہے، ہم چاہتے یہ بات چیت تیزی سے آگے بڑھے، ہم بات کر رہے ہیں اور دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہم امریکہ سے اچھی تعلقات کے خواہاں ہیں اور اس بارے میں کوئی سوال یا دوسری رائے ہی نہیں۔
مشیر قومی سلامتی نے کہاکہ ‘پاکستان کی اپنی سوچ اور نقطہ نظر میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔۔۔ اب جیو سٹریٹیجک کے بجائے جیو اکنامک نظریہ پایا جاتا ہے۔”ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا سے لوگ پاکستان آئیں اور معاشی شراکت داری کریں۔۔۔ اب ہم فوجی اڈوں کی پیشکش کے دھندے میں نہیں مگر ہمارے اکانومک (معاشی)اڈے سب کے لیے کھلے ہیں۔’ان کا کہنا تھا کہ پاکستان معاشی بنیادوں پر تمام ممالک کے لیے کھلا ہے اور یہ پیشکش امریکہ کے لیے بھی ہے۔گوادر بندرگاہ پر بارے ایک اور سوال کے جواب میں معید یوسف نے جواب دیا کہ چین کی 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لیکن شاید دوست اسی لیے ہوتے ہیں۔ ہمارا چین سے سٹریٹیجک تعلق ہے اور ہمیشہ رہا ہے۔ اور ہمارے آپسی تعلقات مضبوط سے مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ تعلقات کسی اور ملک کی قیمت پر نہیں۔’
‘میں گوادر کے بارے میں واضح کرتا جاوں کہ وہاں (چین کے)کوئی فوجی اڈے نہیں بلکہ وہاں اکنامک (معاشی) اڈے ہیں اور ہم نے امریکہ، مشرق وسطی اور روس کو بھی ان معاشی اڈوں کی پیشکش کی۔ کوئی بھی جو پاکستان میں آ کر سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔’انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہمیں معاشی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ چین ایک بہت اچھا دوست ہے۔ اور اس بارے میں کوئی شک نہیں۔۔۔ سی پیک سے مراد توانائی اور روڈ انفراسٹرکچر ہے جس سے کوئی بھی فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔’معید یوسف نے کہا کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ چین میں انسانی حقوق کا سوال بار بار کیسے سامنے آتا ہے۔’
اس بارے میں بات نہیں کی جاتی کہ مسلم دنیا اور انسانی حقوق کے بہت سے ایسے معاملات ہیں جو پاکستان اٹھاتا رہتا ہے۔’معید یوسف نے کہا کہ ‘میں جب کشمیر کی بات کرتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں دوسرے ملک کے لوگوں کی نہیں بلکہ اپنے لوگوں کی بات کر رہا ہوں۔ میں ایسے علاقے پر غیر قانونی قبضے کی بات کرتا ہوں، جسے اقوام متحدہ متنازع قرار دے چکی ہے۔ اپنے لوگوں کے لیے بولنا میرا حق ہے کیونکہ میں کسی دوسرے ملک کے لوگوں کی بات نہیں کر رہا۔ جہاں تک چین کی بات ہے تو سنکیانگ کے بارے میں ہم مغربی نقط نظر کو قبول نہیں کرتے۔ اگر امریکہ کو تحفظات ہیں تو وہ چین سے بات کرے۔ وہ ایک خود مختار ملک ہے۔ پلیز جائیں اور انھیں اپنے خدشات سے آگاہ کریں۔ تو میں نے اپنے آپ کو واضح کر دیا ہے کہ یہ دوہرا معیار نہیں۔
کشمیر کے لوگ میرے اپنے ہیں تو میں ان کے بارے میں بات کروں گا اور یہ میرا حق ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے بارے میں ایک اور سوال پرمعید یوسف نے کہا کہ ‘ہر کیس کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ زیادہ تر تعداد میں وہ لوگ ہیں جو دہشت گرد تھے یا جرائم میں ملوث تھے، وہ کہیں لڑائی لڑنے گئے اور بدقسمتی سے مارے گئے۔’انھوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے کسی کیس میں بھی خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ دار ریاست کی طرح اقدامات کیے جائیں گے۔معید یوسف نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے لیے سب سے زیادہ فنڈز بلوچستان سمیت غیر ترقی یافتہ علاقوں کو دیے ہیں۔
‘کسی کی بھی خلاف ورزی کی صورت میں ہم تحقیقات کریں گے۔’جب ان سے پوچھا گیا کہ عالمی تنظیموں کی رپورٹس کے برعکس کیا وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نہیں مانتے تو ان کا جواب تھا کہ ‘میں آپ کی اصطلاح سنگین کو نہیں مانتا۔”اگر ہمیں کوئی بھی ایسا کیس ملتا ہے جہاں ریاست نے کچھ کیا جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھا تو متعلقہ شخص کے خلاف تحقیقات کی جاتی ہے اور سزا دی جاتی ہے جیسے کسی ذمہ دار ریاست میں ہوتا ہے۔ ریاستیں ایسے ہی چلتی ہیں مگر کوئی ریاست مثالی نہیں ہے۔ لیکن انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں نہیں ہو رہیں۔
اکثر کیسز میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو ریاست سے لڑ رہے تھے یا کہیں اور۔۔۔ یہ لوگ بدقسمتی سے بچ نہیں سکے۔ ہماری یہ تحقیق ہے۔۔۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سب سے کمزور پاکستانی بھی خود کو محفوظ سمجھے۔’ معید یوسف سے پوچھا گیاکہ آیا یہ دانشمندی ہے کہ کالعدم عسکریت پسند گروہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں افغان طالبان کی ثالثی قبول کی جائے۔اس پر معید یوسف کا جواب تھا کہ ‘یہ مڈل مین کا معاملہ نہیں، وہ ملک (افغانستان)پر حکومت کر رہے ہیں اور ٹی ٹی پی کی ساری قیادت افغانستان میں ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس گروہ نے ہزاروں پاکستانیوں کو قتل کیا ہے۔ براہ راست یا بالاواسطہ ہر پاکستانت ان کی دہشتگردی کا نشانہ بنا۔ یہ وہ گروپ ہے جسے ہمارا حریف انڈیا اور اشرف غنی کے دورِ حکومت میں افغان انٹیلیجنس نے سپورٹ کیا تاکہ پاکستان میں دہشتگردی کو فروغ دیا جا سکے۔ تو اگر کسی کو اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے تو وہ صرف پاکستان اور پاکستان کے عوام ہیں۔
‘سپریم کورٹ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں معید یوسف نے کہا کہ ‘میرا پہلا جواب یہ ہے کہ آپ اس ملک میں جمہوریت دیکھیں کہ ایک جج نے وزیراعظم کو بلایا اور وہ عدالت میں پیش ہوئے، جہاں جج نے ان سے سخت سوال جواب کیے اور پھر سٹیفن سیکر کو مجھ سے اس بارے میں بات کرنے کا موقع ملا۔ یہ میرے ملک میں جمہوریت ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔”اب آپ کے ٹی ٹی پی کے سوال پر آتے ہیں تو آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ایسے والدین ہیں جنھوں نے اپنے بچے کھوئے، ایسے بھائی ہیں جنھوں نے بہنیں کھوئیں، ایسے بیٹے تھے جنھوں نے اپنے باپ کھوئے، ایسے قبائل تھے جن کو ختم کر دیا گیا، ان تمام لوگوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے لیکن پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم کیا کرنے کی کوشش کرہے ہیں۔ بحیثیت ایک ریاست ہماری مستقل طور پر یہ کہنے کی پالیسی رہی ہے کہ بات چیت سے تنازعات کو ختم کیا جا سکتا ہے اور مذاکرات ہونے چاہیں۔ ہم نے افغانستان میں 20 برس تک امریکیوں، برطانیہ اور دوسروں کو بھی یہی بتایا۔ میری خواہش ہے کہ انھوں نے ہماری بات سنی ہوتی۔
‘انھوں نے مزید کہا کہ ‘اب صورتحال کیا ہے، ٹی ٹی پی کی لائف لائن انڈیا اور افغان انٹیلیجنس تھی جو اب جا چکے ہیں۔ ان کے افغانستان میں افغان طالبان کے ساتھ روابط ہیں۔ ہم اس وقت مضبوط پوزیشن میں ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ اس وقت کمزور ہو رہے ہیں تو ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ معافی مانگ رہے ہیں، اگر وہ پاکستان میں قانون کے راستے سے گزرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے آئین کے تحت رہنا چاہتے ہیں، اپنے جرائم کی سزا قبول کرتے ہیں، ہمیشہ کے لیے تشدد چھوڑ دیتے ہیں تو ہم ان کی بات سننے کو تیار ہیں۔’ اس سوال پر کہ ، پاکستانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق آپ ان کے قیدیوں کو رہا بھی کر رہے ہیں اور کچھ سینیئر طالبان رہنماوں کو سیز فائر معاہدے کے تحت رہا کیا گیا ہے۔
کیا یہ سچ ہے؟’معید یوسف نے جواب دیا کہ ‘یہ سچ نہیں۔کوئی قیدی رہا نہیں کیا،انھوں نے جواب دیا کہ ‘ہم ان (ٹی ٹی پی)کی بات سن رہے ہیں کہ کیا وہ اس بارے میں سنجیدہ بھی ہیں یا نہیں کیونکہ خاندان ہیں، بیوی بچے ہیں، ہزاروں پاکستانی ہیں جن کا کسی نہ کسی طرح ان سے لنک ہے اور ریاست کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی دوسرے پاکستانی کو مار ڈالے۔ہم اس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے کہ بغیر کسی خون بہے پاکستان کے شہری اب محفوظ ہیں۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ریاست کے پاس تمام آپشنز کھلے ہیں لیکن ہر ریاست کو یہ حق حاصل ہے، جو میرے نزدیک عقلمندانہ اور سمارٹ ہے کہ جہاں آپ کے پاس مضبوط پوزیشن ہو، تنازعات کو بات چیت سے ختم کیا جائے۔ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اس معاملے پر میڈیا رپورٹنگ میں بہت زیادہ شور شرابا پایا جاتا ہے۔ابھی ایسا کچھ بھی نہیں اور اگر ایسا ہو گا تو میرا یقین کریں جب ہم چاہیں گے ہم آپ کو اور دنیا کو بتا دیں گے۔