رجسٹرارسپریم کورٹ کا پاکستان انفارمیشن کمیشن کے حکم کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع


اسلام آباد (صباح نیوز)رجسٹرارسپریم کورٹ آف پاکستان نے شہری کو معلومات کی فراہمی کے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے حوالہ سے اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے معاونت طلب کرلی جبکہ عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کردی ہے۔

رجسٹرار سپریم کورٹ نے مئوقف اختیار کیا ہے کہ معلومات تک رسائی ایکٹ کے تحت پبلک باڈی معلومات دینے سے انکارنہیں کرسکتی،معلومات تک رسائی قانون کا اطلاق پبلک باڈیز پر ہوتا ہے، آئینی عدالت پر نہیں، پاکستان انفارمیشن کمیشن کے حکم میں جو معلومات شہری کو دینے کا کہا گیا وہ پبلک ریکارڈ میںنہیں آتی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا رجسٹرارسپریم کورٹ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرسکتا ہے۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کا کہنا تھا کہ کورٹ آئینی عدالت ہے یہ فیڈرل لاء کے تحت نہیں آتا، قانونی طور پر پی آئی سی سپریم کورٹ کو ہدایات جاری نہیں کرسکت۔

کمیشن نے کہا ہے کہ اس کے پاس اپنے فیصلے پر نظرثانی کا اختیار بھی نہیں ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ رجسٹرار کے خلاف رٹ جاری نہیں ہوسکتی ، وہ متاثرہ فریق کیسے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن نے معلومات تک رسائی کے ایکٹ کے تحت ایک شہری مختار احمد علی کی درخواست پر درخواست پر ڈیڑھ سال قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ درخواست گزار کو سپریم کورٹ ملازمین سے متعلق مکمل معلوما ت فراہم کرے۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو حکم دیا تھا کہ سپریم کورٹ کے عملے کی بنیادی معلومات، ان کی بھرتیاں، ان کی تعداد، کنٹریکٹ پر کتنے ہیں اور ریگولر کتنے ہیں درخواست گزار کو فراہم کرے۔ جبکہ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ قانون کے مطابق اپنے عملے کی بنیادی معلومات فراہم کرسکتی ہے،سپریم کورٹ کے ملازمین کے حوالہ سے ضرورت معلومات پہلے ہی عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آئینی باڈی ہے اور یہ اس کا مینڈیٹ ہے کہ جو چیز وہ چاہتے ہیںوہ ان کے پراپر ریکارڈ پر موجود ہے اور یہ عوامی مقصد کے لیئے کافی ہے۔