ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول اور برائون یونیورسٹی کے کاسٹ آف وار پروجیکٹ کے مطابق افغانستان کی بیس سالہ جنگ میں 2448امریکی فوجی، 3846کنٹریکٹر جبکہ دیگر اتحادی ممالک کے 1144 فوجی ہلاک ہوئے۔
اسی طرح افغان آرمی اور پولیس کے 66ہزار،تقریباً 47245 سویلین، 51191 طالبان، 444امدادی کارکن اور 72 صحافی لقمہ اجل بنے۔ یعنی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مجموعی طور پر 7438افراد مارے گئے جبکہ مجموعی طور پر 16942افغان زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
یعنی اس بیس سالہ مشق میں تقریباً 172390 جان کی بازی ہار گئے۔ دوسری طرف امریکہ نے 2 اعشاریہ 26 ٹریلین ڈالر یعنی 2ہزار ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کی۔
سب سے بڑا حصہ یعنی ایک ٹریلین ڈالر (ایک ہزار ارب ڈالر) امریکی محکمہ دفاع نے جنگ کی مد میں خرچ کیا۔ 144 ارب ڈالر افغانستان کی تعمیر نو کی مد میں خرچ ہوئے جو زیادہ تر امریکی کنٹریکٹر ہی کے ذریعے خرچ ہوتے رہے۔
ایک اور بڑا حصہ یعنی 88 ارب ڈالر افغان فوج کی ٹریننگ اور اسے مسلح کرنے کی نذر ہوئے لیکن اس کے باوجود افغانستان میں غربت کی یہ حالت ہے کہ گزشتہ سال صدر اشرف غنی نے کہہ دیا تھا کہ نوے فی صد افغانیوں کی فی کس آمدنی 2 ڈالر روزانہ سے کم ہے۔
افغانستان چار کروڑ آبادی پر مشتمل ملک ہے اور امریکی جنگ کی بجائے اگریہ رقم تعمیر نو پر خرچ کرتے تو نہ صرف وہاں سے انتہاپسندی کا خاتمہ ہوجاتا بلکہ شاید افغانستان ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہوتا لیکن بیس سال بعد جب امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان چھوڑ رہے تھے تو پونے دو لاکھ انسانوں کی قربانی اور سوا دو ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان ایشیا کا غریب ترین ملک تھا۔
اسی طرح افغانستان شرح خواندگی کے لحاظ سے ایشیا میں سب سے پیچھے تھا اور اس کی جی ڈی پی کا حجم صرف 20 ارب ڈالر تھا۔ اندرونی وسائل نہ ہونے کے برابر ہونے کی وجہ سے ایک ملین کے قریب سرکاری ملازمین کی تنخواہیں امریکی ادا کیا کرتے تھے۔
یہ تھی افغانستان کی حالت جب طالبان اس پر قابض ہوئے لیکن ان کے قبضے کے ساتھ اقتصادی محاذ پر چند مزید تبدیلیاں آگئیں۔ پہلا کام تو یہ ہوا کہ افغانستان میں ہر سال جو اربوں امریکی ڈالر آرہے تھے، ان کا سلسلہ بند ہوا۔
سرکاری ملازمین کو امریکہ کی طرف سے ادائیگیاں روک دی گئیں جبکہ اشرف غنی حکومت نے بھی تین ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کیں۔امریکہ اور مغربی ممالک چونکہ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اس لئے اس کے حصے کے 9ارب ڈالر کے فارن ایکسچینج ریزروز بھی امریکہ نے منجمد کردئیے۔ طالبان حکومت دنیا کے ساتھ آزادانہ تجارت کرنےکے بھی قابل نہ رہی۔
جنگ کا خاتمہ تو ہوگیا لیکن المیہ یہ ہے کہ طالبان صرف جنگ کا تجربہ رکھتے تھے جبکہ گورننس کے معاملے میں ان کا کوئی تجربہ نہیں۔ انہوں نے مخالفین کے لئے عام معافی کا اعلان تو کردیا لیکن سابقہ حکومتوں کے تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو اپنی حکومت میں شامل نہ کر سکے۔
ابتدا میں کئی ہفتے ان کو افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے میں لگے اور باقی وقت حکومت سازی پر صرف ہوا۔ جو حکومت بنائی گئی ہے، اسے عبوری حکومت کا نام دیا گیا ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ مستقل حکومت کب اور کن بنیادوں پر بنائی جائے گی؟
امریکہ اور مغرب کے مطالبات تو اپنی جگہ چین، روس اور پڑوسی ممالک بھی ان سے سب فریقوں پر مشتمل (انکلوسیو) حکومت بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن طالبان اپنی موجودہ حکومت کو یہ کہہ کر انکلوسیو کہہ رہے ہیں کہ اس میں چند تاجک، ازبک اور ترکمن وزرا بھی شامل ہیں۔
امریکہ، روس اور چین سمیت سب ممالک اگرچہ ان سے رابطے میں ہیں اور بعض لوگ اس کی یہ تشریح کررہے ہیں کہ عملا ان سب نے طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا ہے لیکن رسمی طور پر ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جس کا سب سے بڑا نقصان معیشت کی مد میں ہورہا ہے۔
ابھی تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان، روس، چین اور بعض عرب ممالک نے امدادی سامان بھیجا ہے جبکہ انڈیا بھی گندم بھجوا رہا ہے لیکن ظاہر ہے کہ خیرات سے ملک نہیں چلائے جا سکتے۔
طالبان ابھی تک معیشت کی بحالی کے لئے کوئی لائحہ عمل بھی سامنے نہیں لا سکے اور نہ مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان نظرآتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف ہرات شہر میں ستر فی صد کمپنیوں نے کام چھوڑ دیاہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان کو اس وقت بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے۔
آدھی سے زیادہ آبادی غذائی قلت کی شکار ہے۔ تقریباً چالیس لاکھ بچوں کو مناسب خوراک، مناسب پانی، ادویات اور شدید سردی سے بچاؤ کے لئے مناسب لباس میسر نہیں۔
ایک مثبت تبدیلی یہ آئی ہے کہ طالبان حکومت میں اتنی کرپشن نہیں جتنی سابق حکومت میں ہوا کرتی تھی لیکن تب پیسے کی بہتات تھی اور اب پیسہ نہیں۔ دوسری مثبت تبدیلی یہ آئی ہے کہ فی الحال جنگ کاخاتمہ ہوگیا ہے لیکن بدقسمتی سے امریکیوں نے افغانستان میں صرف اسلحہ چھوڑا ہے پیسہ نہیں۔
اس لئے اگر معاشی مسئلے بلکہ المیے کو حل نہ کیا گیا تو طویل عرصے تک امن وامان کو برقرار رکھنا طالبان کے لئے مشکل ہوجائے گا۔ بھوک اور افلاس سے تنگ افغان بغاوت پر اتر سکتے ہیں۔
سابق حکومت کے اہلکار اور طالبان مخالف عناصر اس وقت افغانستان سے نکل چکے ہیں یا پھر ملک کے اندر خاموش بیٹھے ہیں۔طالبان نے معاشی بحران کا حل نہ نکالا تو ان کی کامیابی ناکامی میں بدل سکتی ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی حکومت کو حقیقی معنوں میں انکلوسیو بنائیں.
ماہرین کو حکومت میں سموئیں اور ایسا نظام تشکیل دیں کہ ان کی حکومت کو عالمی سطح پر قبولیت مل جائے۔ افغانستان کی امداد کیلئے اب اوآئی سی کا اجلاس پاکستان میں طلب کیا گیا ہے لیکن اوآئی سی بحران کا حل کبھی نہیں نکال سکتی۔
قابل عمل راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ چین، روس اور افغانستان کے پڑوسی ممالک ایک لائحہ عمل بنائیں۔ اپنے نظام کی تشکیل اور حکومت کو انکلوسیو بنانے کے لئے طالبان ان ممالک اور بالخصوص پڑوسی ممالک کی تجاویز کو اہمیت دیں اور ان کے خدشات دور کریں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ