مذاکرات کا دستِ شفا…الطاف حسن قریشی


صدیوں کے تجربات اور مشاہدات کے بعد یہ حقیقت مسلمہ طور پر تسلیم کر لی گئی ہے کہ جمہوری نظام کا بنیادی وصف مذاکرات، رواداری اور قوتِ برداشت میں ہے۔ جن جن ملکوں میں یہ اصول زندگی کے ہر شعبے میں کارفرما ہیں، اُنہیں سیاسی استحکام بھی حاصل ہے اور معاشی خوشحالی بھی اور اکثر اوقات پیچیدہ مسائل بحران بننے سے پہلے ہی وسیع تر مشاورت سے حل کر لیے جاتے ہیں۔ پاکستان جو سیاسی اور قانونی جدوجہد کے نتیجے میں عالمی اُفق پر نمودار ہوا، اِس میں چند سال بعد ہی سیاسی زلزلے آنا شروع ہو گئے اور نظامِ حکومت طرح طرح کے تجربات کی آماجگاہ بن گیا۔ بعدازاں بعض فوجی حکمرانوں کی کم نظری اور اِقتدار کی لامحدود ہوس کے باعث ملک ہی دولخت ہو گیا۔ البتہ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہر دور میں دانش مند طبقات مذاکرات کو مسائل کا واحد حل قرار دَیتے رہے اور عوام نے بھی فوجی اور سویلین آمریتوں کے خلاف جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کوئی بھی آمر دس بارہ سال سے زیادہ تخت پر قابض نہیں رہ سکا۔ پاکستان کے مقابلے میں شام کے اندر جس نظام کے خلاف حال ہی میں تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے، اُس میں حافظ الاسد اور بشار الاسد 54 سال عوام کی گردنوں پر مسلط رہے۔ اُنہوں نے بڑی بےدردی سے اپنے سیاسی مخالفین کا صفایا کیا، شہر کے شہر بموں سے اُڑا دِیے اور اُن کے خون آشام دور میں بدترین فسطائیت رقص کناں رہی جو شرفِ انسانیت کو پاؤں تلے روندتی چلی گئی۔

اللہ کا شکر ہے کہ بارہ تیرہ برسوں کی شدید محاذآرائی اور اِنتہائی شرمناک بدتہذیبی اور گالم گلوچ کے اذیت ناک عہد کے بعد تحریکِ انصاف اور اُس کے سیاسی حریفوں کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا ہے جس کی کامیابی کے بارے میں بعض حلقوں کے اندر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ حالات پر گہری نگاہ رَکھنے والے تجزیہ نگار برملا کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات میں نہ حکمران سنجیدہ ہیں نہ پاکستان تحریکِ انصاف کے طاقت ور عناصر۔ مذاکرات محض دکھاوا ہیں جن کا مقصد فیصلہ کن حملے سے بچاؤ کے لیے زیادہ سے زیادہ وَقت حاصل کرنا اور دُنیا کو یہ فریب دینا ہے کہ حکومت کے معاملات جمہوری انداز میں چلائے جا رہے ہیں۔ اِن تجزیوں میں بظاہر حقیقت پسندی کا رنگ پایا جاتا ہے، مگر اصل حقیقت کی جستجو مزید غوروخوض کا تقاضا کرتی ہے۔

یہ درست ہے کہ عمران خان نے مذاکرات کے لیے جو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، اُس کے چار اَرکان پہلی میٹنگ میں شامل نہیں ہوئے۔ اُن کے بارے میں یہ تبصرہ سامنے آیا ہے کہ وہ مذاکرات کے حق میں نہیں، اِس لیے اُنہوں نے مذاکراتی عمل میں شریک ہونا غیرمناسب خیال کیا۔ اِس تجزیے میں کسی قدر صداقت محسوس ہوتی ہے۔ دراصل ایک عشرے سے زائد پاکستان کی فضا ’لٹیروں‘ اور ’غداروں‘ کے نعروں سے گونجتی رہی ہے اور ایک دوسرے پر انتہائی رکیک حملے کیے جاتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے ایک طاقت ور میڈیا نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے جس کی فیک خبروں کو پھیلانے کی مہارت کا ایک دنیا اعتراف کر رہی ہے۔ تحریکِ انصاف کی قیادت بڑے فخر کے ساتھ کہتی آئی ہے کہ چوروں اور لٹیروں سے کبھی بات چیت نہیں کرے گی اور تمام برے عناصر کا خاتمہ کر کے ہی دم لے گی۔ اِس قیادت کو ایک زمانے میں فوج کے طاقت ور اَفسروں کی حمایت بھی حاصل رہی، چنانچہ وہ سیاسی لیڈروں کے ساتھ بڑی رعونت سے پیش آتی اور ہر اچھی سیاسی اور اَخلاقی روایت کا تیاپانچہ کرتی رہی۔ فوج کے خلاف کھڑے ہو جانے سے قانون شکن لوگوں میں اُسے غیرمعمولی حمایت حاصل ہوئی اور مختلف ذرائع سے یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ اِس جماعت کو برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین کے عمائدین کا قرب حاصل ہے۔ یہ حالات عشروں پر محیط رہے اور اِسی دوران 9 مئی کا خون آشام حادثہ پیش آیا جو قوم کے اجتماعی مزاج کے یکسر منافی تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ بھی کہا جاتا رہا کہ عمران خان کی موجودگی میں پاکستان کی سلامتی غیرمحفوظ رہے گی۔ دوسری جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ فوج اپنی حدود سے تجاوز کرنے کے باعث وطن کا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہی۔

اِس غیرمعمولی نوعیت کے تناؤ میں پاکستان سیاسی اور معاشی اعتبار سے عدم استحکام کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور عوام شدید گرانی کی چکّی میں پستے رہے۔ اِن دل و دِماغ کو مفلوج کر دینے والے حالات سے مذاکرات کا راستہ نکال لینا فی الحقیقت بہت بڑا کارنامہ ہے اور اِس راستے پر چلتے رہنا اُس سے بھی کہیں زیادہ بڑا کارنامہ ثابت ہو گا۔ شروع شروع میں قدم قدم پر نادیدہ رکاوٹیں بھی آئیں گی، طرح طرح کے رخنے بھی ڈالے جائیں گے اور چھپ چھپ کر حملے بھی کیے جائیں گے، مگر میری چھٹی حِس کہتی ہے کہ حالات کا جبر تمام فریقوں کو عقلِ سلیم سے کام لینے پر مجبور کر دے گا۔

اب تک عسکری قیادت کو بھی احساس ہو چکا ہو گا کہ طاقت کے ذریعے سیاسی مسائل حل ہونے کے بجائے بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ اُسے یہ بھی احساس ہو گیا ہو گا کہ کوئی بھی شخص یا ادارہ عقلِ کُل نہیں اور سیاسی معاملات کو ذمےدار سیاست دانوں کے حوالے کر دینے سے ہی سیاسی استحکام پیدا ہو گا۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد اَور تنظیموں کو مذاکرات کی کامیابی میں اپنا مثبت کردار اَدا کرنا ہو گا۔ دنیا میں زندہ رَہنے کا یہی معروف طریقہ ہے۔عمران خان جو طالع آزما فوجی افسروں کے بھرّے میں آ گئے تھے، اُنہیں بھی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ دھرنوں اور بےمقصد جلسے جلوسوں سے عوام کے مسائل بہت پیچیدہ ہو جاتے ہیں، حالات سے وہ بھی خوف زدہ معلوم ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں مَیں اردو کے معروف شاعر جون ایلیا کا کلام سُن رہا تھا۔ ایک شعر مجھے یاد رَہ گیا ؎

مَیں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

اِس شعر سے عمران خان کا سراپا میرے سامنے آ گیا، چنانچہ مَیں اُن کے لیے دعا کرتا رہتا ہوں کہ وہ شائستگی اور میانہ روی کی راہ اِختیار کریں اور اَپنی صلاحیتیں پاکستان کی بہتری کیلئے بروئےکار لائیں۔ اِس طرح وہ ایک ہولناک انجام سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ