اداس نسلیں:خان دیدہ ور ،ٹرمپ مسیحا…نصرت جاوید


عبداللہ حسین شاعر نہیں تھے۔ ان کا طرزِ زندگی بھی بنیادی طورپر ’’کلرکوں‘‘ والا تھا۔ ایک سیمنٹ فیکٹری میں نوکری کرتے تھے جو ادبی مراکز سے بہت دو رمیاں والی کے نواحی علاقے دائودخیل میں قائم ہوئی تھی۔ دنیا سے تقریباََ کٹے اور فطرتاََ تنہائی پسند عبداللہ حسین نے مگر اپنی تنہائی اور فرصت کے تمام لمحات ایک ناول لکھنے کو وقف کردئے۔ وہ مکمل ہوگیا تو نام اس کا ’’اداس نسلیں‘‘ رکھا۔
مذکورہ ناول کی ساخت، کردار، پلاٹ اور زبان فی الوقت میرا موضوع نہیں۔ میرے ذہن میں ’’اداس نسلیں‘‘ کا عنوان اٹکا ہوا ہے۔ یہ ناول پڑھنے کے بعد میں سوچتا تھا کہ قیام پاکستان کے چند برس گزرجانے کے بعد لکھے اس ناول میں غالباََ وہ ان نسلوں کو اداس پکاررہے تھے جو سامراج کی غلامی میں زندگی بسر کرنے کو مجبور ہوئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مگر شدت سے احساس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ وہ اس خطے کی ہر نسل کو اداس ٹھہرا چکے ہیں۔
میں نے یہ ناول میٹرک کا امتحان دینے کے بعد 1969کی گرمی میں پڑھا تھا۔ اسے سمجھنے کے لئے تین سے چار مرتبہ پوری توجہ سے ایک ایک سطر پر غور کیا۔ اپنی دانست میں مذکورہ ناول کو ’’سمجھ‘‘ لیا تو عبداللہ حسین مجھے ایک ’’رجعت پسند‘‘ لکھاری محسوس ہوئے۔ میں نے انہیں دورِ حاضر سے لاتعلق اس لئے بھی محسوس کیا کہ 1968کے اکتوبر سے ایوب آمریت کے دس برس کے خلاف طلباء تحریک شروع ہوگئی تھی۔ شروع تو وہ کراچی سے ہوئی مگر اس کا اثر لاہور بھی پہنچ گیا۔ میں سکول کا طالب علم ہوتے ہوئے بھی اس تحریک کے برپا کئے احتجاجی جلسوں اور جلوسوں میں حصہ لیتا رہا۔ بالآخر مارچ 1969میں ایوب خان صدارت سے مستعفی ہوکر گھر چلے گئے۔
ایوب خان کے استعفیٰ کو مجھ سادہ لوح نے ’’انقلاب‘‘ تصور کیا۔ یہ بھول گیا کہ ایوب خان کے خلاف تحریک چلانے کا اصل مقصد تو پاکستان میں جمہوری نظام کا قیام تھا۔ ایوب خان تو چلے گئے مگر ان کی جگہ جمہوری نظام کے بجائے جنرل یحییٰ کا مارشل لاء لگا۔ گزشتہ کئی برسوں سے ماضی کے بارے میں جب بھی سوچتا ہوں تو اکثر یہ شبہ ہوتا ہے کہ ایوب خان کے خلاف جلوس نکال کر لاٹھی اور آنسو گیس کا اکثر شکار ہونے والا یہ بدنصیب درحقیقت یحییٰ خان کا دانستہ سہولت کار تھا۔ یہ خیال بنیادی طورپر میں نے 2007کے برس سے سوچنا شروع کیا۔ اس برس بھی کوئٹہ سے ڈومیسائل کی برکتوں سے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہوا افتخار چودھری جنرل مشرف کے خلاف ’’انکار‘‘ کی علامت بن کر ابھرا۔ ہمارے عوام کی اکثریت نے اس کے انکار میں ایک مسیحا تلاش کرلیا۔ عدلیہ بحالی کی تحریک شروع ہوگئی۔ ہمیں یقین دلایا گیا کہ افتخار چودھری اپنے عہدے پر بحال ہوگئے تو ’’ریاست ماں کی طرح‘‘ شفیق بن جائے گی۔
ایسا مگر ہوا نہیں۔ افتخار چودھری اپنے منصب پر لوٹے تو ان کے ’’انصاف‘‘ کا اصل نشانہ عوام کے منتخب کردہ نمائندے اور حکومت رہے۔ ان کے ازخود نوٹسوں کی بھرمار نے بالآخر عوام کی اکثریت کو یہ سوچنے کو مجبور کردیا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میںبیٹھے افراد کی اکثریت ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ پر مشتمل ہے۔ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی شناخت ہوگئی تو ہمیں روایتی سیاستدانوں سے ہٹ کر کسی ’’دیدہ ور‘‘ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ عمران خان اپنی کرشمہ ساز شخصیت کی بدولت ’’دیدہ ور‘‘ کے سانچے میں فٹ ہوگئے۔ کرکٹ کے اس ہیرو نے اپنی والدہ کے نام پر گلی گلی جاکر چندہ جمع کرنے کے بعد لاہور میں کینسر کا جدید ترین ہسپتال بنایا تھا۔ ہم نے امید باندھ لی کہ سیاست میں آکر وہ اقتدار تک پہنچ گئے تو ہمارے معاشرے کو مفلوج بنانے والے کیسز کا حل ڈھونڈلیں گے۔
عمران خان کی بطور ’’دیدہ ور‘‘ لانچنگ سے قبل مگر افتخارچودھری نام کے مسیحا نے ایسے حالات پیدا کئے جنہوں نے جنرل مشرف کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کو مجبور کیا۔ کمان کی چھڑی جنرل کیانی کے حوالے کردی۔ جنرل کیانی ’’جمہوریت نواز‘‘ تصور ہوئے۔ موصوف نے مگر افتخار چودھری کی معاونت سے منتخب حکومت کو چین کا ایک پل بھی لینے نہ دیا۔ امریکی صدر اوبامہ کو افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے اپنے ’’نسخے‘‘ فراہم کرتے رہے۔ ان کے ہوتے ہوئے مگر پہلے سوات اور بعدازاں ماضی کے قبائلی علاقوں میں ایک نہیں متعدد فوجی آپریشن کرناپڑے۔ موصوف کی تین سالہ معیادِ ملازمت ختم ہونے سے کئی ماہ قبل ہی سول حکومت کو انہیں مزید تین سال ہماری رہ نمائی کے لئے عطا کرنا پڑے۔ ان کے عہدے میں توسیع پیپلز پارٹی کی حکومت نے کی جس کی رہ نما نام نہاد این آر اوکے تحت وطن لوٹی تھیں۔ انہیں راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔ ان کا قتل آج بھی ایک معمہ ہے۔ اقوام متحدہ اور سکاٹ لینڈ یارڈ کی معاونت بھی اس کا سراغ نہیں لگاپائی۔ 1968کی ’’جمہوری تحریک‘‘ کے بعد جنرل یحییٰ نمودار ہوئے۔ عدلیہ تحریک کے انجام پر بھی جونسل پروان چڑھی وہ ’’اداس‘‘ ہی رہی۔
ان دنوں کی نوجوان نسل بھی عبداللہ حسین کے ’’کشف‘‘ کے مطابق اداس ہونے کی تیاری میں ہے۔ سوشل میڈیا پر توجہ دیں تو بآسانی دریافت ہوجاتا ہے کہ امریکہ میں ہوئے حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد ہمارے نوجوانوں کی بے پناہ تعداد کو کامل یقین ہے کہ وائٹ ہائوس پہنچتے ہی ڈونلڈٹرمپ عمران خان کو جیل سے رہا کروادے گا۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان کی فوج کو بھی ’’آنے والی تھاں‘‘ پر رکھے گا۔ یہ امید باندھتے ہوئے ہمارے نوجوان بھول جاتے ہیں کہ 1950کی دہائی سے امریکہ نے پاکستان کے عسکری اداروں کو مضبوط تر بنانے کی کاوشیں شروع کردی تھیں۔ سرد جنگ کا دور تھا۔ ان کی دانست میں عوامی تائید کے محتاج سیاستدان سوویت یونین کے خلاف سینہ پھلا کر کھڑے ہونے کے قابل نہیں تھے۔ 1950 کی دہائی میں جو کاوشیں ہوئی بالآخر 1986میں بارآور ثابت ہوئیں جب سوویت یونین نے افغانستان سے اپنی افواج واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ سوویت یونین اس کے بعد سوویت یونین بھی نہ رہا۔ روس تک محدود ہوگیا۔ افغانستان کو مگر نہ جمہوریت ملی نہ امن۔ پاکستان کو یہ دونوں چیزیں فراہم کرنے میں ٹرمپ کو کوئی دلچسپی نہیں۔ ہم نجانے اس میں سے کیوں ایک جمہوریت نواز مسیحا تلاش کررہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت