اسلام آباد (صباح نیوز) جوگرز کے ذریعے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ کرنے والے کا پتہ لگایا گیا۔بی بی سی اردو کے مطابق 15 سالہ بلال کو اس کے ساتھی نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے جوگرز اتار لے کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پتا ہے کہ جہادی اس سٹائل کے جوتے استعمال کرتے ہیں۔ بلال عرف سعید نے اپنے ساتھی کی بات مان لی اور سینڈل پہن لیے، جس کے بعد وہ اپنے مشن پر روانہ ہو گئے۔تاہم بعد میں ہونے والی تفتیش کے دوران بلال کے جسم کے اعضا کا ان جوگرز سے ملنے والے نمونوں کا موازنہ کیا گیا تو ثابت ہوا کہ بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ کرنے والا 15 سالہ بلال ہی تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو خود ساختہ جلاوطنی کے بعد 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپس لوٹی تھیں۔ اس موقع پر ان کے استقبالیہ جلوس پر کراچی میں حملہ کیا گیا تھا اور اس کے بعد 27 دسمبر کو راولپنڈی میں لیاقت باغ میں جلسے کے بعد ان پر حملہ ہوا جس میں بینظیر سمیت 24 افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔ ان کی موت کی تحقیقات جے آئی ٹی، سکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کے کمیشن نے کی تھیں۔لیاقت باغ میں جلسہ ختم ہو چکا تھا۔ بینظیر بھٹو جلسہ گاہ سے نکلنے کے لیے بلٹ پروف لینڈ کروزر میں سوار ہوئیں، جو دبئی میں خصوصی طور پر تیار کی گئی تھی۔ اسی دوران لوگوں نے جئے بھٹو کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیئے ۔ کارکنوں کی محبت اور نعروں کا جواب دینے کے لئے بینظیر کی گاڑی کی چھت کا ہنگامی راستہ کھولا گیا جہاں سے سر نکال کر انھوں نے نعروں کا جواب دینا شروع کیا۔
سکاٹ لینڈ یارڈ نے واقعہ کے دن کی متعدد ویڈیوز کا مشاہدہ کیا تھا اور ان کی رپورٹ کے مطابق اسی دوران پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک کارکن گاڑی پر چڑھ گیا اور بینظیر بھٹو کو چھونے کی کوشش کی، جس کو محافظوں نے زبردستی اتارا۔اس مختصر سی ہلچل کے فورا بعد سیاہ بالوں والا ایک شخص، جس نے دھوپ میں لگانے والا چشمہ لگا رکھا تھا، گاڑی کی طرف بڑھنے لگا اور بینظیر کی لینڈ کروزر کے قریب آ گیا۔ چند ہی لمحوں نے اس نے دوبارہ اپنی جگہ تبدیل کی اور مجمع میں اس طرف چلا گیا جہاں نسبتاً کم افراد موجود تھے۔لینڈ کروزر کے اگلے اور پچھلے دروازے کے وسط میں پہنچ کر اس نے سیاہ رنگ کی گن نکالی اور دائیں ہاتھ میں تھام لی۔ تقریبا دو سے تین فٹ کے فاصلے پر اس نے گن بلند کی اور بینظیر کا نشانہ لے کر لگاتار تین فائر کیے، ہر گولی کے بعد حملہ آور نے گن کا نشانہ تھوڑا تبدیل کیا۔ تیسری گولی فائر کیے جانے سے قبل تک بینظیر گاڑی کے اوپر نظر آ رہی تھیں۔گولیاں داغنے کے بعد حملہ آور نے نیچے زمین کی جانب دیکھا اپنے بازو پر بٹن دبایا، اس وقت نارنجی شعلے کے ساتھ دھماکہ ہوا اور سیاہ دھواں پھیل گیا۔
بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم کی رپورٹ کے مطابق خودکش حملہ آور کا سر دھماکے کی جگہ سے پچیس فٹ کے فاصلے پر ملا جو پارک میں داخلی راستے کے قریب فٹ پاتھ کے قریب پڑا ہوا تھا، جبکہ ایک مہندی لگا ہاتھ اس کے سر کے قریب سے ملا اور دوسرا مہندی لگا بایاں ہاتھ ایک قریبی گھر کے سامنے سے ملا۔پولیس کے ایک حاضر سروس سینئر افسر کے مطابق یہ روایت خیبرپختونخوا میں دیکھی گئی ۔ ان حملہ آوروں کا خیال ہوتا ہے کہ چونکہ حوروں سے ملنے جا رہے ہیں، اس لیے صاف ستھرے ہو کر اور دولہا بن کر جائیں۔ پاکستان میں شدت پسندی اور اس کے رجحانات پر تحقیق کرنے والے محقق عامر رانا کا کہنا ہے ایران میں شش تحریک کے بانی حسن بن صباح کے جو فدائین نوجوان تھے ان میں بھی یہ روایت پائی جاتی تھی۔سکارٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ کے مطابق دھماکے کے مرکز کے قریب سے دو ٹانگیں بھی ملیں، جن کے پاں میں بران رنگ کے سروس سینڈل اور اسی رنگ کے جرابیں موجود تھیں۔ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹس اور ملزمان کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ بینظیر پر حملے کی کئی شہروں میں منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ لیاقت باغ میں حملے سے 13 روز قبل یعنی 12 دسمبر کو نوشہرہ کے علاقے پبی میں حملے کی ریہرسل کی گئی تھی۔ اس کیس میں گرفتار ایک ملزم رشید احمد عرف رحیم ترابی نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ ابتدا میں 26 دسمبر کو پشاور میں حملے کا منصوبہ تھا،
لیکن سخت سکیورٹی کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔پولیس نے دھماکے اور اس کی منصوبہ بندی کے الزام میں رشید احمد سمیت پانچ ملزمان کو گرفتار کیا تھا جن میں اعتزاز شاہ عرف سیف اللہ، شیر زمان، حسنین گل اور محمد رفاقت شامل تھے۔ اعتزاز شاہ نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ والدین کی بغیر اجازت وہ مکین میں طالبان کے مرکز میں گیا تھا جہاں طالبان کے مرکزی رہنما ثنااللہ نے اس کی تربیت کی، جس کے بعد اس کو طالبان مرکز لدہا اور اس کے بعد تنگئی منتقل کیا گیا، جہاں روزہ دین (فدائی مرکز کے امیر)نے اس کو خودکش حملے کے لیے تیار کیا، یہاں اس نے ڈرائیونگ بھی سیکھی۔ اعتراز شاہ کے بیان کے مطابق روزہ دین نے اکتوبر 2007 میں اس کو بتایا کہ بینظیر بھٹو پر خودکش حملہ کرنا ہے اور اس نے رضامندی کا اظہار کیا۔ وہ مقامی طالبان رہنما شیر زمان کے گھر گیا جہاں امجد اور صابر نامی افراد موجود تھے جن کو بھی بینظیر پر حملے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔اعتزاز شاہ نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ عید قربان کے تیسرے روز وہ دوبارہ شیر زمان کے گھر گیا اور پوچھا کہ اس کو خودکش حملے کے لیے کیوں نہیں بھیجا گیا۔ شیر زمان نے اس کو بتایا کہ بیت اللہ محسود نے جیکٹ بنانے کے لیے بارود کی خریداری کے لیے پچاس ہزار روپے دیے ہیں،
جیکٹ لانے میں کچھ تاخیر ہوئی ہے اور یہ کہ جیسے ہی سامان (خودکش جیکٹ)ملے گا اس کو حملے کے لیے روانہ کر دیا جائے گا۔27 دسمبر کی رات بی بی سی کے ذریعے اس کو معلوم ہوا کہ بینظیر بھٹو پر حملہ کر دیا گیا ہے، جس کے بعد وہ ڈہیلا مرکز کے امیر ولی محمد کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ اس کو کیوں نہیں بھیجا گیا تو ولی محمد نے بتایا کہ منصوبے کے مطابق بینظیر بھٹو کے بچ جانے کی صورت میں اس کو بھیجا جانا تھا۔گرفتار ملزم شیر زمان نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ امیر نواز محسود نے انھیں بتایا کہ وہ بینظیر کو مارنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس کو سات ہزار روپے دیئے گئے تاکہ وہ لاڑکانہ میں حملے کے لیے موزوں جگہ تلاش کر سکے۔ ایک اور ملزم حسنین گل نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ میران شاہ میں تربیت کے دوران اس کا نادر عرف قاری اسماعیل سے تعلق بنا تھا جو اکوڑہ خٹک مدرسے میں رہتا تھا۔ اس نے نومبر 2007 میں اکوڑہ خٹک کا دورہ کیا جہاں قاری اسماعیل نے انھیں بتایا کہ بینظیر کا خاتمہ کرنا ہے کیونکہ اس کو امریکہ نے مجاہدین اور طالبان کے خاتمے کے لیے پاکستان بھیجا ہے۔ بقول حسنین کے نادر عرف قاری اسماعیل، نصراللہ عرف احمد اور حسنین گل نے انتخابی جلسے میں بینظیر پر حملے کی منصوبہ بندی کی، عید الضحیٰ سے پانچ چھ روز قبل نصراللہ راولپنڈی آ گیا جس کو وہ اور اس کا کزن رفاقت ٹیکسی میں گھر لے کر آئے۔ اس کے بعد انھوں نے لیاقت باغ کی ریکی کی اور اسلام آباد میں پارلیمنٹ اور لال مسجد دیکھنے چلے گئے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ حملہ آور راستے میں دو مدارس میں رہے۔
اس کے بعد مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے روم نمبر 70 میں قیام کیا جہاں انھوں نے کپڑے تبدیل کئے۔تحقیقاتی رپورٹس اور ملزمان کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آوروں کو بذریعہ بس لایا گیا، جس کی تصدیق حسنین گل کے بیان سے ہوتی ہے۔ اس نے بتایا کہ 26 دسمبر کو نصراللہ نے فون کال کی تھی اور بتایا تھا کہ نصراللہ عرف احمد، سعید عرف بلال اور اکرام اللہ خودکش حملے لیے آ رہے ہیں۔دو تین گھنٹوں کے بعد نصراللہ نے اس کو راولپنڈی میں آمد کی اطلاع دی اور وہ رفاقت کے ہمراہ انھیں لے کر رفاقت کے گھر آ گئے، دوسرے روز صبح آٹھ، نو بجے نصراللہ اور رفاقت لیاقت باغ کی ریکی کرنے چلے گئے۔ حسنین گل نے بتایا کہ حملہ آور سعید عرف بلال اور اکرام اللہ کو خودکش حملے لیے تیار کیا اور انھیں جیکٹ، پستول اور گولیاں دیں۔ بمبار سعید عرف بلال نے حسنین کا سیاہ چشمہ بھی پہن لیا اور ایک شال، ٹوپی اور ایک جوگرز کا جوڑا گھر چھوڑ گیا۔صحافی اون بینٹ جونز بھٹو ڈائناسٹی میں لکھتے ہیں کہ حسنین نے بلال کو مشورہ دیا کہ ان تربیتی جوتوں (جوگرز)کے علاوہ کچھ اور پہنے کیونکہ سکیورٹی فورسز کو آئیڈیا ہے کہ یہ جوتے جہادی پہنتے ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ وہ ان جوتوں کے باعث پکڑے جائیں۔ اس مشورے پر اس نے سینڈل پہنے اور جوگرز وہاں اتار دیئے ،
اس سے قبل دونوں حملہ آوروں نے غسل کیا۔حسنین گل نے اپنے بیان میں جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ سعید عرف بلال کو جلسے سے بینظیر بھٹو کے خارجی راستے پر تعینات کیا گیا جبکہ اکرام اللہ کو اس ہدایت کے ساتھ پبلک گیٹ پر تعینات کیا گیا کہ بلال کی ناکامی کی صورت میں وہ خودکش حملہ کرے گا، یہ بھی فیصلہ ہوا کہ جلسے کے اندر حملہ کیا جائے گا لیکن حملہ آور رش کی وجہ سے وہاں تک نہیں پہنچ سکے۔حسنین کے مطابق اس نے فائرنگ اور دھماکے کی آواز سنی، اس کے بعد نصراللہ ڈائیوو اڈے کی طرف چلا گیا جبکہ اکرام اللہ کا پتہ نہیں چلا اور وہ رفاقت کے ہمراہ گھر کی طرف لوٹے، راستے میں انھوں نے بینظیر کی موت کے بارے میں سنا۔حسنین گل کے بیان پر پولیس نے رفاقت کے گھر سے ایک شال، ٹوپی اور ایک جوگرز کا جوڑا برآمد کیا۔سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ حملہ آور بلال جو شوز رفاقت کے گھر میں چھوڑ گیا تھا اس کو حکومت نے جسم کے بعض اعضا سمیت ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے امریکہ بھیجا، جہاں سے تصدیق ہوئی کہ بمبار بلال تھا اور شوز اسی کے ہیں۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ کے مطابق ریڈیوگرافر نے بمبار کے ہاتھ کے ایکسرے کی مدد سے عمر کا تعین کیا اور اس کی عمر 15 سال چھ ماہ بتائی۔حملہ آور بلال کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹس اور ملزمان کے بیانات میں زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں ہیں،
بعض حوالوں کے مطابق اس کی پیدائش افغانستان کے بارڈر کے قریب ہوئی تھی۔انقلاب محسود فرنگی راج سے امریکی سامراج تک میں مفتی نور ولی لکھتے ہیں کہ اس حملے میں فدائی اکرام اللہ نکلنے میں کامیاب ہوا جو تاحال حیات ہے۔ اس کا تعلق حلقہ مکین سے ہے اور بلال کا تعلق حلقہ بدر سے تھا۔ مولوی عمران کے بقول اس کارروائی میں ان کی معاونت احمد، قاری اسماعیل اور ملا احسان نے کی تھی۔ پاکستان حکومت کا کئی سال تک یہ موقف رہا کہ اکرام اللہ جولائی 2017 میں ایک ڈورن حملے میں مارا گیا ہے لیکن وہ زندہ تھا اور کرم ایجنسی میں طالبان کا سربراہ بن چکا تھا، اور اس کا نام بعد میں مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ اکرام اللہ اس سازش کا ایک حصہ تھا۔ اگر بینظیر بھٹو پہلے حملے میں بچ جاتیں تو اس کو پھٹنا تھا، دھماکے بعد وہ نکل آیا اور مکین میں بیت اللہ محسود کے پاس چلا گیا جہاں بیت اللہ نے اس کو اپنے پاس رکھ لیا۔جب بیت اللہ کی ڈرون میں ہلاکت ہوئی تو یہ افغانستان چلا گیا، میں نے حکومت پاکستان کو متعدد لیٹر لکھے ہیں کہ آپ حکومت افغانستان سے درخواست کر کے اس کو ڈی پورٹ کرائیں یا گرفتار کر کے یہاں بھجوائیں، کیونکہ وہ اس سازش کا زندہ جاگتا ثبوت ہے جس سے ٹوٹی ہوئی کڑیاں ملیں گی۔
حکومت پاکستان کیا افغانستان میں طالبان نگران حکومت سے اکرام اللہ کی گرفتاری کے لیے رابطے کرے گی؟ اس بارے میں بی بی سی کی جانب سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اور وزارت خارجہ دفتر سے تحریری سوال کیا گیا تاہم ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔یاد رہے کہ جون 2018 میں ایک ویڈیو بیان میں اکرام اللہ نے واضح کیا تھا کہ حملے اور اس کی تیاری میں کسی بھی لمحے میں وہ ملوث نہیں تھا اور نہ ہی انھیں اسے منصوبے کا کوئی علم تھا۔ لیاقت باغ میں حملے اور بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد ملزمان کے بیانات کے مطابق اس منصوبہ بندی میں شامل نادر عرف قاری اسماعیل اور نصراللہ عرف احمد کی مشکوک حالات میں ہلاکت ہوئی۔جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم کو بتایا گیا کہ نادر عرف قاری اسماعیل اور نصراللہ عرف احمد 15 جنوری 2008 کو ایک 14، 15 سال کی عمر کے ایک لڑکے کو بارودی جیکٹ پہنا کر خودکش حملہ کرنے کے لیے ایک کار میں سوار ہو کر جا رہے تھے۔ دوپہر کو مہمند رائفلز کی تحصیل علزئی کی چیک پوسٹ موسومہ کھپر سے گزرنے لگے تو مہمند رائفلز کے جوانوں نے کار پڑتال کے لیے روکی تو نادر خان عرف قاری اسماعیل اور نصراللہ عرف احمد کار سے نکل کر بھاگے۔دونوں فائرنگ سے زخمی ہوئے اور اسی دوران نادر موقع پر ہلاک ہو گیا جبکہ کار میں موجود لڑکے نے خود کو بارود سے اڑا دیا۔ نصراللہ عرف احمد بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال منتقل ہوا جہاں اس کی موت ہو گئی۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں ایک عبیدالرحمان چٹان تھا جو ان کا مرکزی ہینڈلر تھا۔ اس کو پشاور کی ایک گلی میں ٹریس کیا گیا جو اپنی سالی کے پاس رہتا تھا، وہ جس رات کو وہاں چھاپہ مارنا چاہتے تھے حیرت انگیز طور پر وہ خیبر کے لیے روانہ ہو گیا۔ہمیں ٹیلیفون ایجنسی نے گمراہ کیا کہ یہ تو گجرانوالا میں ہے۔ میں نے اپنی ٹیم پشاور سے نہیں ہٹائی اور کہا کہ گجرانوالا نئی ٹیم چلی جائے لیکن دوسرے دن ڈرون نے عبدالرحمان کو نشانہ بنایا جبکہ اس سے قبل نہ بعد میں کبھی خیبر ایجنسی کے اس علاقے میں ڈرون حملہ ہوا۔رحمان ملک بتاتے ہیں کہ پراسیکیوٹر کو ہلاک کر دیا گیا، ظاہر ہے کوئی تو پیچھے لگا تھا کسی تو پتہ تھا کہ درست رخ میں چیزیں جا رہی ہیں، اس کو توڑو، کئی شکوک شبہات جنم لیتے ہیں۔ اگر اکرام اللہ ہمارے ہاتھ لگ جائے اوراس کی تحقیقات ہو تو بہت سے اور پردے کھلیں گے۔ راولپنڈی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اگست 2017 میں رفاقت، حسنین گل، شیر زمان، اعتزاز شاہ اور رشید احمد کو بری کر دیا تھا اور قرار دیا تھا کہ استغاثہ ملزمان پر الزام ثابت نہیں کر سکی ہے۔
ایف آئی اے نے اس فیصلے کو چیلنج کیا اور درخواست میں کہا گیا کہ اس مقدمے کے پانچ ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر رہا کرنے کے فیصلے میں سقم موجود ہیں کیونکہ تفتیش کے دوران عدالت کی طرف سے رہائی پانے والے ان پانچ ملزمان سے نہ صرف اسلحہ برآمد ہوا تھا بلکہ انھوں نے اعتراف جرم بھی کیا تھا۔اس کے علاوہ بینظیر بھٹو کے شوہر اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جس میں ملزمان کو سزائے موت دینے کی درخواست کی گئی ہے، اس درخواست سماعت ابھی جاری ہے۔اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق پنجاب حکومت نے امن و امان میں رخنہ ڈالنے کے الزام میں ان مشتبہ ملزمان کو قید کیا، جس کو انھوں ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا جس پر عدالت نے ان کی رہائی کا حکم جاری کیا اس کے بعد سے ان کا کوئی پتہ نہیں۔