موجودہ حکومت نے ہر فورم پر تنازعہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اٹھایا ہے،قمر زمان کائرہ


اسلام آباد(صباح نیوز)وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور کشمیر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے ہر فورم پر تنازعہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اٹھایا ہے،تنازعہ کشمیر کے حوالے سے اقوام عالم کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر بھی آگاہی کی ضرورت ہے،بھارت طاقت کے زور پر تنازعہ کشمیر کے حل کو التوا میں ڈال سکتا ہے لیکن زیادہ دیر تک کشمیریوں کو محکوم نہیں رکھ سکتا۔

وزارت امور کشمیر وگلگت بلتستان کے زیر اہتمام بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں وکشمیر کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں قانونی پہلو اور پیش بندی کے موضوع پر منعقدہ جوڈیشل مشاورتی کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔انہوں نے کہا کہ تنازعہ کشمیر پر جوڈیشل مشاورتی کانفرنس کا مقصد کشمیری کے مقدمہ پر قانونی رہنمائی حاصل کرنا ہے،کشمیر تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے،پاکستان کشمیر کے تنازعہ کے حل کے لئے پرعزم ہے،بھارت تسلسل سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد سے انکاری ہے،وہ اقوام عالم اور اقوام متحدہ کی قرادادوں سے توجہ ہٹانے کے لئے کوشاں ہے،اس کے اقدامات اس مسئلہ کو پس پشت ڈالنا ہے،حالیہ ترامیم اس کی ایک اور کوشش ہے،وہاں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لئے غیر ریاستی باشندوں کو ڈومیسائل کا اجرا اور ووٹ کا حق دیا جارہا ہے۔اس کے لئے بھارت اسرائیل کے فلسطین میں تجربہ سے رہنمائی لے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر میں حریت پسندوں نے اپنی قربانیوں سے اس مسئلہ کو زندہ رکھا ہوا ہے، جو قوم اتنی قربانیاں دے اس کو زیادہ دیر تک محکوم نہیں رکھا جاسکتا۔اس کو طول دیا جاسکتا ہے التوامیں رکھا جاسکتا ہے لیکن زیادہ دیر اسے اس حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ تنازعہ کشمیر پر پوری قوم متحد ہے،کشمیریوں کے ساتھ پاکستان کا دل دھڑکتا ہیپاکستان کی کسی حکومت کے کشمیر پر عزم میں کمی نہیں آئی۔اس میں طریقہ کار میں فرق ہوسکتا ہے۔ہر حکومت کا ایک جیسا لگائو ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد مسئلہ کشمیرپر رکھی گئی ہے،کشمیر کی آزادی ہماری حتمی منزل تھی،ہے اور رہے گی،موجودہ حکومت کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ جہاں بھی گئے،جس بھی عالمی لیڈر سے ملاقات ہوئی وہاں اپنی بات کا آغاز مسئلہ کشمیر سے ہی شروع ہوا۔موجودہ حکومت کی عالمی فورمز پر بات چیت کا مرکزی نکتہ تنازعہ کشمیر ہے۔یہ ہمارا عزم ہے کہ جہاں بھی موقع میسر آیا وہاں کشمیر کا تنازعہ اجاگر کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ اس سے قبل آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کو مدعو کیا جس میں موجودہ وسابق صدور و وزرا اعظم سے مشاورت کی۔اب اس پر قانونی رائے کے لئے سابق ججز اور سینئروکلا کا مدعو کیا ہے تاکہ اپنی سمت کو مزید بہتر بنائیں۔یہ راہنمائی ملے کہ آگے بڑھنے کا قانونی اور بہتر راستہ کیا ہے۔اس کانفرنس میں سامنے آنے والی تجاویز دفتر خارجہ اور دیگر حلقوں کو ارسال کریں گے۔انہوں نے کہا کہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے عالمی فورمز کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر بھی آگاہی کی ضرورت ہے۔اس پر تعلیمی اداروں میں مکالمہ کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ جامعات میں کشمیر چیئرزکے قیام کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ آنے والی نسل کو تنازعہ کشمیر کی حساسیت سے آگاہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ہم کوشش کریں گے کہ اس مسئلہ کو ادارہ جاتی بنیادوں پر آگے لے جائیں،اس مسئلہ پر کوٹہ سسٹم سے دوروں سے اجتناب ہونا چاہییے،بیرونی فورمز پر تنازعہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے پارلیمانی کشمیر کمیٹی قائم کی گئی ہے۔آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں 14 ترامیم ہوئی ہیں،15 ویں ترمیم کا آغاز ہوا تو آزادکشمیر میں فاروق حیدر کی حکومت تھی اور مرکز میں عمران خان حکمران تھے ۔اس میں وفاقی سبجیکٹس کے حوالے سے قانون سازی کا مسئلہ تھا۔ اس کے لئے فورم کشمیر کونسل تھا اس کو بغیر سوچے سمجھے ختم کردیا گیا۔ہم نے Smooth functioning کے لئے اقدامات اٹھائے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے بجٹ پر کٹ نہیں لگنے دیا۔ہم عوام کے منتخب نمائندوں کا احترام کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے 6 رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں تین نمائندے وفاق اور تین کشمیر سے لئے گئے۔پندرھویں ترمیم کا مسودہ ہم نے نکال کر اس کمیٹی کودیا،یہ کمیٹی اختلاف اور اتفاق کی حامل شقیں سامنے لائیں اس پر کمیٹی کام کرے گی۔اس پر تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت ہوگی پھر اس کو وفاقی کابینہ میں لایا جائے گا اگر یہاں سے منظور ہوا تو پھر اس کو آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں لے جائیں گے اور اگر وہاں سے اس کی دوتہائی اکثریت سے منظوری ہوئی تو اس کو نافذ العمل کیا جائے گا۔ہم نے یہ کام نیک نیتی سے کیا ہے،ہم اختیارات نچلی سطع پر لے جانے والی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر سید منظور گیلانی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر سفارتی طور پر ہی حل ہوسکتا ہے اور اس کے لئے پاکستان میں سیاسی استحکام ضروری ہے،اس تنازعہ کے حل کے لئے غیر جانبدارانہ کردار کے لئے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کا کردار اہم ہے،استصواب رائے ایڈوائزر کی تعیناتی آزاد کشمیر کشمیر کے عبوری آئین میں شامل ہے اس کی وادی سے تعیناتی کی جائے،کشمیری کو کل وقتی وکیل مقرر کریں، کشمیری فیس سامنے آئے گا تو پاکستان کا بھرم باقی رہ سکتا ہے،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو لوکل اتھارٹی بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ہم نے کشمیر کے مسئلہ کے حل کے کئی مواقع گنوائے،اسی وجہ سے اس مسئلہ کے حل میں طوالت ہوئی، بھارت اقوام متحدہ میں اسی لئے گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو طوالت دینا چاہتا تھا اور وہ اس میں کامیاب رہا۔ہم نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت پر اس کا کیس دیکھنا ہے پھر اس کو کائونٹر کرنا ہے۔معاہدہ تاشقند کے بعد یہ تنازعہ دو طرفہ اسی روز بن گیا تھا۔اقوام متحدہ میں یہ فیصلہ ابھی تک زیر التوا ہے۔بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے اٹھائے گئے اقدامات بھی چالاکی سے مانے اور پھر اپنی اجارہ داری اور قبضہ بھی مضبوط کیا۔آئین کا سہارا لے کرکشمیر کو ایک ریاست کی حد تک بھارت نے محدود کیا ہم نے اس پر احتجاج نہیں کیا۔بھارت میں متشدد بی جے پی کی حکومت ہے۔آرٹیکل 370 کے تحت بھارت نے سب سے خطرناک واردات ڈالی ہے،انڈین آئین کی شق268 میں ترمیم کی،اس کے تحت سارے اختیارات لے لئے۔پاکستان کی کشمیر کے حوالے سے پالیسی میں تسلسل کی ضرورت ہے اور اس کے لئے قانونی،سیاسی اور سفارتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ایونٹ کی بنیاد پر پالیسی سے گریز کیا جائے۔سابق چیف جسٹس اعظم خان نے کہا کہ آرٹیکل 370 میں ترمیم سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی۔مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومت کو مستحکم کیا جائے اس کے لئے دونوں اکائیوں کی مشترکہ حکومت بھی بنائی جا سکتی ہے یہاں کے نمائندوں کو دنیا میں کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لئے بھیجا جائے۔

سابق چیف جسٹس محمد ابراہیم ضیا نے کہا کہ کشمیر کے تنازعہ کا حتمی فیصلہ کشمیریوں کی منشا کے مطابق ہوگا،یہ حق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حاصل ہے۔کوئی دوطرفہ حل نہیں،یہ قراردادیں کشمیر کے حل کی بنیاد ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کے معاملہ پر پاکستان کی کوئی مستقل پالیسی نہیں ہے۔آگے بڑھنے کے ہمہ جہت نئی پالیسی بنانی چاہییے۔ہمیں اقوام متحدہ کے چارٹر 7 کے تحت اس تنازعہ کو دنیا کے امن کے لئے خطرہ کے طور لانا ہوگا۔اس کے ماہرین پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے جو بھارت کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے شواہد اکٹھے کرے۔عالمی عدالت انصاف سمیت ایسے عالمی اداروں میں اس معاملہ کو اٹھایا جائے۔سہ ماہی بنیادوں پر پاکستان میں موجود سفارتکاروں کے ساتھ انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں ان کے سامنے لائی جائیں۔سی پیک کو ہم وسط ایشیائی ریاستوں سمیت دیگر اقوام کے مفاد میں استعمال کرنے کے لئے راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔شملہ معاہدے میں تنازعہ کشمیر دوطرفہ نہیں بن گیا۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ہر نظریہ رکھنے والوں کا احترام ہے لیکن پاکستان کے ساتھ ہمارے رشتے مضبوط ہوں گے تو اس سے کشمیر کے تنازعہ پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔اس پر استعداد کار میں اضافہ کی ضرورت ہے۔افغانستان پر بے شمار قربانیاں دینے کے باوجود پاکستان واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے وہ ثمرات حاصل نہیں کرسکا،کشمیر میں اس صورتحال سے بچنے کے لئے پیش بندی کی ضرورت ہے۔الحاق پاکستان کی قرارداد کو صرف مسلم کانفرنس ہی نہیں ہندو جماعتوں نے بھی منظور کیا۔اس وقت ہمارا مطمح نظر بھارتی تسلط سے کشمیر کی آزادی ہونا چاہییے۔جسٹس ریٹائرڈ سردار عبدالحمید خان نے کہا کہ پاکستانی جامعات میں کشمیر چیئرز کا قیام احسن اقدام ہے۔پاکستان 14 اگست کو معرض وجود میں آیا اور ہم کشمیریوں نے 19 جولائی کو ہی اپنی منزل کا تعین قرارداد الحاق پاکستان منظور کرکے کردیا تھا۔کشمیر کے تنازعہ پر عالمی فورمز پر بھیجے گئے وفود کو پہلے اس مسئلہ کی حساسیت سے آگاہ کرکے بھیجے جانے کی ضرورت ہے۔

سردار کرم داد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمان تنازعہ کشمیر پر مباحثہ کرے،آزاد کشمیر کو پاکستان کی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دی جائے۔کشمیری دانشوروں کو دنیا میں تنازعہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے بھیجا جائے۔سابق وزیر حکومت سردار عابد حسین عابد نے کہا کہ 5اگست 2019 کا اقدام کشمیر پر قبضہ کے بعد سب سے بڑا شب خون مارا گیا،کشمیر پر پائیدار پالیسی کے لئے ایک مستقل ادارہ ہونا چاہییے۔ایک معاشی اور اقتصادی طور پر مستحکم پاکستان ہمارے لئے ضروری ہے،بیرون ملک میں کشمیر کے تنازعہ پر آگاہی کے لئے بیرون ملک آزادکشمیر اور پاکستان کے پارلیمانوں کے مشترکہ وفود بھیجے جائیں،کشمیر کے تنازعہ کو اجاگر کرنے کے انگریزی میڈیا کی خدمات لی جائیں۔اوآئی سی عالمی برادری پر کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے مجبور کرسکتی ہے۔ہمارے تارکین وطن جو مختلف ممالک کے ووٹر ہیں وہ وہاں اپنے ووٹ کو کشمیر کے تنازعہ کے حل کے لئے کردار سے جوڑیں۔کشمیریوں کو الحاق یا خودمختاری سے پہلے استصواب رائے ملنا ہے۔کانفرنس سے سابق صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولاکوٹ راجہ اعجاز ایڈووکیٹ،سردار حبیب ایڈووکیٹ،چوہدری نعیم ایڈووکیٹ نے بھی خطاب کیا۔

قمر زمان کائرہ نے کانفرنس کے اختتام پر کہا کہ شرکا کی آرا سے پالیسی سازی میں استفادہ کرنے کے لئے متعلقہ اداروں تک پہنچائیں گے۔یہ وقت طلب کام ہے،تمام فریقین سے مشاورت کرکے آگے بڑھنا ہے،ہندوستان سے آزادی ہر کشمیری کی متفقہ رائے ہے،طاقت کے زور پر زیادہ عرصہ حقوق سلب نہیں کئے جاسکتے۔انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی حکومت، بارکونسلز،سیاسی جماعتیں اگر گلگت بلتستان کے حوالے سے کوئی رائے دیں گے تویہ متنازعہ نہیں ہوں گے۔انہوں نے کانفرنس کے شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔انہوں نے کہا کہ پندرھویں ترمیم پر سوا گھنٹے مظفرآباد جا کر پریس کانفرنس کی۔راولاکوٹ میں جاری احتجاج اس سے پہلے سے چل رہا تھا جو بجلی کے بلز کے حوالے سے تھا۔آزاد کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ یہاں کی قیادت نے کرنا ہے، ہمیں اس کااحترام ہے۔۔