عز و ہمت کے پیکر شہید غلام رسول ڈار: محمد شہباز

جناب غلام رسول ڈار کو ہم سے بچھڑے 21 برس مکمل ہوچکے ہیں۔16 جنوری 2004 میں جمعہ کے دن ڈار صاحب سرینگر میں اپنے خفیہ مقام پر بھارتی افواج کی جانب سے مارے گئے چھاپے کے دوران جام شہادت نوش کرگئے۔ان کے ہمراہ عباس راہی ڈوڈہ اور عابد بھائی ترال بھی جام شہادت نوش کرگئے،جو باالترتیب حزب المجاہدیں کے ملٹری ایڈوائزر اور ترجمان کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے جبکہ خود ڈار صاحب حزب المجاہدین کے چیف آپریشنل کمانڈر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔1989میں مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے شروع کی گئی مسلح جدوجہد نے ہر مکتبہ فکر اور تنظیم و جماعت کو بھی اپنی جانب کھینچ لیا،چونکہ ڈار صاحب شروع دن سے اسلام کے مبلغ اور دین کے داعی کے طور پر جانے پہنچانے تھے،ضلع بڈگام میں ہر خاص و عام ان سے واقف اور شناسا تھے کیونکہ ڈار صاحب گاوں گاوں مساجد میں وعظ و تبلیغ کیلئے جاتے تھے،ان کی انہی انتھک کاوشوں نے انہیں نوجوان طبقے میں بے حد پذیرائی بخشی،جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر کے ساتھ وابستگی اور پھر کشمیری زبان میں قرآن و حدیث بیاں کرنے میں ڈار صاحب کو ملکہ حاصل تھا۔ڈار صاحب کشمیر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اور فائن آرٹس میں گریجویشن کرچکے تھے۔انہیں انگریزی اور اردو زبانوں پر اچھا خاصا عبور حاصل تھا،مگر اپنی مادری زبان کشمیری کی شریں کلامی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اسلام کے داعی اور مربی نے کشمیری نوجوانوں پر خصوصی توجہ مبذول کررکھی تھی،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نواز جماعتوں کیساتھ وابستہ جو بزرگ ڈار صاحب کی مخالفت میں پیش پیش رہتے تھے،وہ نوجوانوں کی جانب سے ڈار صاحب کی کھلی تائید کے باعث کمزور پڑگئی تھی۔ڈار صاحب کی دعوت و فکر نے نوجوانوں کے سینوں میں بھارت کے خلاف بغاوت کا لاوا بھر دیا،جو 1989 میں ایک بغاوت کی شکل میں پھٹ پڑا۔تحریک مزاحمت کے اولین روح رواں محمد اشرف ڈار اور شیخ عبدالوحید ڈار صاحب کو اپنا استاد اور ان کیساتھ بے حد عقیدت رکھتے تھے۔عسکری تحریک کے اغاز میں ہی ڈار صاحب بیس کیمپ روانہ ہوئے، یہاں پہنچتے ہی انہیں حزب المجاہدیں کا اولین سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔جس پر وہ 1992 تک کام مسلسل ذمہ داری نبھاتے رہے۔وہ بیت المال کے بھی نگران تھے۔ان کے تقوی کا یہ عالم تھا کہ اپنے تو اپنے ان کے شدید مخالفیں بھی ان کی دیانت و امانت کے گرویدہ اور قائل تھے۔سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد انہیں لانچنگ کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔1993 میں عسکری تحریک کی پہلی کاروائی میں شرکت کرنے والے محمد مقبول الہی کی شہادت کے بعد ڈار صاحب کو وسطی کشمیر کا ڈیوژنل کمانڈر مقرر کیا گیا،انہوں نے رخت سفر باندھا اور اپنے ایک دیرنیہ کارکن اور ہمدرد الفت اور ماجد سلطان کے ہمراہ ایک دشوار گزار پہاڑی سلسلے کو عبور کرتے ہوئے میدان کارزار میں پہنچے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں تین برس تک مجاہدین کی قیادت کرتے رہے۔انہی کے دور میں چرار شریف بڈگام کا مشہور زمانہ واقعہ بھی رونما ہوا،جہاں سینکڑوں مجاہدین چرار شریف کی درگاہ میں موجود تھے۔ہزاروں بھارتی فوجیوں نے چرار شریف جو وسطی ضلع بڈگام کی سب سے بڑی بستی بھی ہے کو باہر سے محاصرے میں لے رکھا تھا،جوتقریبا ایک ماہ تک جاری رہا،جس میں حزب المجاہدین کے بٹالین کمانڈر ظفر کاوا شہید جبکہ باقی سارے مجاہدین بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔جس کے انتقام میں بھارتی سفاکوں نے چرار شریف کی پوری بستی کو اگ لگا کر سینکڑوں رہائشی مکانات اور درگاہ کو نذر اتش کیا تھا۔چرار شریف کا محاصرہ اور مجاہدین کا بچ نکلنا بھارت کیلئے عالمی سطح پر سبکی کا باعث بنا ،کیونکہ عالمی میڈیا نے پہلی بار چرار شریف کے لوگوں کے ساتھ براہ راست بات چیت کی تھی۔جس میں اہلیاں چرار شریف نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ بستی کو بھارتیوں کے ہاتھوں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرنا قبول مگر مجاہدین کا نقصان ناقابل برداشت ہے۔1996 کے آواخر میں ڈار صاحب کو دوبارہ بیس کیمپ بلایا گیا۔ ان کی جگہ جناب میر احمد حسن کو میدان کارزار میں بھیجا گیا،گو کہ میر احمد حسن مقبوضہ وادی کشمیر جانے کے بجائے پونچھ و راجوری کی طرف چلے گئے،جہاں اگست 1997 میں وہ ایک خونریز معرکے میں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔
ڈار صاحب 1997 سے لیکر 2003 تک حزب المجاہدین کی مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے۔1997 میں وہ نیلم ویلی سے واپس آرہے تھے تو ایک خطرناک موڈ کاٹتے ہوئے گاڑی حادثے کا شکار ہوئی،جس میں ان کے ڈرائیور عرفان شہید جبکہ خود ڈار صاحب شدید زخمی ہوئے تھے۔جس کے نتیجے میں انہیں CMH مظفر آباد میں کئی دنوں تک ایڈمٹ رہنا پڑا99 ۔1998میں ان کے بچے بھی ہجرت کرکے یہاں پہنچے۔ان کی فیملی کو شدید مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا، بھارتیوں نے ڈار صاحب کی فیملی کو بے وطن ہونے پر مجبور کیا،2003 میں حزب المجاہدین نے میدان کار زار کی پیش بندی اور حکمت عملی کے پیش نظر ڈار صاحب کو جناب انعام اللہ خان کی شہادت کے بعد چیف آپریشنل کمانڈر مقرر کیا۔ڈار صاحب اگست 2003 میں پھر ایکبار عسکری میدان میں تشریف لے گئے۔چھ ماہ تک ڈار صاحب عسکری داو پیچ اور مجاہدیں کو برہمن سامراج کے خلاف نبرد ازما کرانے کی قیادت اگلی صفوں میں کرتے رہے۔شب وروز گزرتے رہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت جدید ٹیکنالوجی متعارف کراچکا تھا۔ عسکری میدان میں ڈار صاحب 1993 سے 1997 چار برس تک داد شجاعت دیتے رہے۔حکمت عملی بدل چکی تھی۔2001 کے بعد عالمی حالات یکسر اسلام پسندوں کے برعکس موڑ کاٹ چکے تھے۔بھارت ان بدلتے عالمی حالات کا بھرپور فائدہ اٹھارہا تھا۔امریکہ بھارت کو اپنا حلیف قرار دیکر اس سے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی بھی فراہم کرچکا تھا۔ڈار صاحب کے ایک قریبی ساتھی اور ملٹری ایڈوائزر کو گرفتار کیا جاچکا تھا۔ڈار صاحب دارالحکومت سرینگر میں اپنے خفیہ ٹھکانے پر موجود تھے۔ان کے سیٹلائٹ فون کی ٹریکنگ مسلسل ہورہی تھی اور پھر 16 جنوری 2004 میں بھارتی فوجیوں نے سرینگر کے اس علاقے کو کارڈن آف کیا جہاں ڈار صاحب اپنے خفیہ مقام پر موجود تھے،ان کے ساتھ حزب المجاہدین کے ترجمان عابد بھائی ترال بھی موجود تھے۔دونوں نے ہزاروں بھارتی فوجیوں کا مقابلہ کیا اور پھر دونوں شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوئے۔یقینا ڈار صاحب اسی مقام اور مرتبے کے حق دار تھے جو انہیں 16 جنوری 2004 میں نصیب ہوا۔یہ سعادت ہر ایک کے نصیب میں بھی نہیں ہوتی،البتہ انہوں نے جن ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو شہادت کے راستے کے سفر پر گامزن کیا،خود بھی اسی راستے پر بڑی ثابت قدمی کیساتھ فائز رہے اور پھر اپنے لہو سے اس بات کی گواہی دی ہے کہ
اے مرے دوست! ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ڈار صاحب جماعت اسلامی کے حوالے سے کافی حساس تھے۔وہ کوئی خلاف معمول بات برداشت نہیں کرتے تھے۔اپنے وقت کے امرائے جماعت اسلامی جناب قاضی حسین احمد اور جناب عبد الرشید ترابی کیساتھ ان کی بڑی عقیدت اور احترام کا رشتہ تھا۔یہاں اس بات کا تذکرہ ناگزیر ہے کہ ڈار صاحب جیسی شخصیات عسکری نہیں بلکہ دعوتی فکر و شعور کی حامل تھیں۔البتہ تاریخی حوادث نے نجانے کتنی ایسی شخصیات کو عسکری میدان کی جانب دھکیلا جو عسکریت کے بجائے دعوت و تبلغ میں اپنا لواہا منواتیں لیکن مورخ جب ڈار صاحب جیسی شخصیت کا تذکرہ کرے گا،تو یہ ضرور لکھے بغیر نہیں رہے گا،کہ جس شخص کے خطابات نے ہزاروں نوجوانوں کے جذبوں کو بھارت جیسی برہمن سامراج کیساتھ ٹکرانے پر آمادہ مائل کیا، بالآخر اسی راستے میں 52 برس کی عمر میں اپنا لہو بھی بہایا۔اللہ تعالی ڈار صاحب اور ان لاکھوں کشمیریوں کی قربانیوں کو رائیگان نہیں جانے دے گا،جنہوں نے اپنا آج قوم کے کل پر قربان کیا ہے۔یہ قربانیاں اور شہادتیں ضرور ازادی کشمیر میں ممدو معاون ثابت ہوں گی۔ڈار صاحب کی شہادت تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوئی،جس کی مہک آج بھی محسوس کی جارہی ہے۔شہید ڈار صاحب کی اہلیہ محترمہ جو کہ ہم سب کیلئے مان کا درجہ رکھتی تھیں وہ بھی 17 فروری 2021 میں اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ ڈار صاحب کی ذات ایک نمونہ عمل تھیں جس کی گواہی ان کا اجلا کردار بار بار دے رہا ہے۔ باالخصوص 1997 اور 2004 میں جب حزب المجاہدین سخت آزمائشیوں سے دوچار ہوئی تو ان ایام میں ڈار صاحب نے جس ثابت قدمی اور اولولعزمی کا مظاہرہ کیا تھا وہ انہی کا خاصہ تھا ۔ اللہ تعالی شہید ڈار صاحب اور دوسرے لاکھوں کشمیریوں کی ان قربانیوں کے صدقے اہل کشمیر کو اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لیں اور بھارت کے غاصبانہ قبضے کی صورت میں جو طویل اور سیاہ رات مسلط ہے اس کا خاتمہ فرمائیں۔خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را