اسلام آباد(صباح نیوز)معروف سینئر صحافی محمد ضیا الدین کی نماز جنازہ میڈیا ٹاؤن میں ادا کی گئی جس کے بعد ان کو میڈیا ٹائون کے قبرستان میں سپر دخاک کر دیا گیا، ان کی نماز جنازہ میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ ،سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی،پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر، سابق چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی آزاد کشمیر اسمبلی عبدالرشید ترابی کے علاوہ صحافیوں، سیاسی وسماجی رہنمائوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
تجربہ کار صحافی محمد ضیاالدین طویل علالت کے بعد 83سال کی عمر میں پیر کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ ان کے 60سال پر محیط شاندار کیریئر میں دی نیوز انٹرنیشنل، ڈان اور ایکسپریس ٹربیون سمیت دیگر میڈیا اداروں کے لیے ان کا وسیع تعاون شامل تھا۔
وہ اسلام آباد میں ڈان کے سابق ریذیڈنٹ ایڈیٹر بھی تھے۔ضیاالدین نے 1964میں کراچی یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، اسی سال انہوں نے پاکستان پریس انٹرنیشنل میں رپورٹر کے طور پر اس پیشے میں قدم رکھا۔
بعد ازاں انہوں نے ڈان میں شمولیت اختیار کی جہاں وہ طویل عرصے تک اسلام آباد اور لاہور کے لیے بطور ریذیڈنٹ ایڈیٹر کام کرتے رہے، وہ 2006سے 2009تک لندن میں اخبار کے نمائندے بھی رہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور بعد ازاں 2002 سے 2006تک ساتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ضیا الدین کے انتقال پر ملک کی صحافت اور میڈیا برادری کی جانب سے تعزیت کا اظہار کیا گیا جس میں مختلف شخصیات نے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی صحافت میں محمد ضیا الدین کو ایک ایسے صحافی کے طور پر جانا جائے گا جس نے ہر دور حکومت میں سچ کا ساتھ دیا۔
دو تین بار بینظیر بھٹو سے ان کی وزارت عظمی کے دوران ملاقاتوں میں ضیا الدین اور محترمہ کی آپس میں خاصی بحث ہوتی تھی۔ ایک بار تو بی بی نے انھیں کہا کہ ضیا صاحب، آپ کا لب و لہجہ اتنا سخت کیوں ہے تو ضیا صاحب نے جواب دیا کہ میرا کام آپ کو سچ بتانا ہے، خوشامدی تو آپ کے ارد گرد بہت ہیں۔
تراسی سال کی عمر میں وفات پانے والے سینیئر صحافی کے چلے جانے پر سبھی یہ اعتراف کر رہے ہیں ھے کہ ان کی زندگی موجودہ دور کے صحافیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔سنہ 1938میں انڈیا کے شہر مدراس میں پیدا ہونے والے محمد ضیا الدین اپنے خاندان کے ساتھ پہلے مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ اور پھر 1960میں 21 سال کی عمر میں کراچی پہنچے۔ بی فارمیسی کی ڈگری لیے انھوں نے ایک دواساز کمپنی میں نوکری شروع کی لیکن ان کا دل اس کام میں نہیں لگا۔
کچھ عرصے بعد انھوں نے صحافت کا رخ کرنے کا ارادہ کیا اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے ہی ان کے صحافتی سفر کا آغاز ہوا جس کے بعد انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
یونیورسٹی کے زمانے میں ہی وہ روزنامہ ڈان سے وابستہ ہو گئے اور پڑھائی مکمل ہوتے ہی پاکستان سپاٹ لائٹ کے نام سے ایک ماہانہ میگزین جاری کیا جو زیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔اس کے بعد پاکستان پریس ایجنسی نامی نجی کمپنی کے ساتھ کام کیا لیکن یہ پاکستان میں صحافت کے لیے کچھ اچھا دور نہیں تھا۔ ایک جانب صدر ایوب دوخان کی سخت پالیسیاں تھیں تو دوسری جانب میڈیا مالکان ویج بورڈ ایوارڈ کے تحت تنخواہیں ادا کرنے سے انکاری تھے۔
پھر 1970کی دہائی میں محمد ضیاالدین نے پہلے پاکستان اکانومسٹ اور بعد میں مارنگ نیوز میں شمولیت اختیار کی۔ کراچی میں بیس سال گزارنے کے بعد 1978میں ضیا الدین نے اسلام آباد آ کر دی مسلم اخبار جائن کیا جہاں جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں اخبار کی کاپی کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے کلیئرنس درکار ہوا کرتی تھی۔
ان کی صحافتی زندگی کا دورانیہ تو پچاس سال سے زیادہ کے عرصے پر محیط ہے لیکن اس کا عروج 1982 میں روزنامہ ڈان میں شمولیت سے شروع ہوا۔ان کے دیرینہ ساتھی ناصر ملک کے مطابق جنرل ضیا الحق کی آمریت ہو یا بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت۔
نواز شریف کی وزارت عظمی ہو یا جنرل مشرف کا دور، ضیا الدین نے وہی لکھا اور کہا جسے وہ سچ سمجھتے تھے۔ڈان میں محمد ضیا الدین کے ساتھ کام کرنے والے ناصر ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضیاالدین نے کبھی کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں لکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو دو صحافیوں کے بہت قریب تھیں جن میں سے ایک ایچ کے برکی اور دوسرے ضیا الدین تھے اور اکثر ان سے مشورہ کرتی تھیں۔
لیکن اس کے باوجود انھوں نے اس تعلق کو اپنی صحافت پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔سینیئر صحافی حامد میر ہی ہیں جو بینظیر بھٹو سے ضیا الدین کی بے تکلفی کے چشم دید گواہ ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دو تین دفعہ بینظیر بھٹو سے ان کی وزارت عظمی کے دوران ملاقاتوں میں ضیا الدین کے ساتھ میں بھی موجود تھا اور میں نے دیکھا کہ ان کی آپس میں کافی بحث ہوتی تھی۔
ناصر ملک کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو نے اپنے دونوں دورِ حکومت میں یہ آفر کی کہ ضیا الدین ان کے مشیر بن جائیں لیکن ضیاالدین کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ میں صحافی ہوں اور صحافی ہی رہوں گا ۔
ایکسپریس ٹریبیون کے سابق مدیر اور محمد ضیا الدین کے قریبی ساتھی کمال صدیقی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضیا الدین موجودہ دور کے صحافیوں سے اس طرح مختلف تھے کہ جہاں آج کل کچھ صحافی پاور بروکر بن جاتے ہیں وہ ایسا نہیں کرتے تھے۔
کمال صدیقی نے کہا کہ ایک سینیئر صحافی ہونے کے باوجود ناصرف ان کی زندگی بہت سادہ تھی بلکہ ان کے اصول نہایت واضح تھے جن پر انہوں نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
ضیا الدین کے شائع ہونے والے ایک حالیہ انٹرویو کے مطابق جب بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات پر برطرف کر دیا تو شواہد کے طور پر ان کی چند رپورٹس کو بھی شامل کیا گیا لیکن بعد میں کبھی بھی بے نظیر بھٹو نے ان سے گلہ نہیں کیا۔
حامد میر کے مطابق پرویز مشرف کے دور حکومت میں میں نے دیکھا کہ ضیا الدین کا لہجہ تو اتنا ہی سخت ہے جتنا بے نظیر بھٹو کے سامنے ہوا کرتا تھا تو میرے نزدیک ان کی عزت اور بھی بڑھ گئی۔
حامد میر نے ایک اور قصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار جب پرویز مشرف چیف آف آرمی سٹاف تھے تو ایڈیٹرز سے ایک ملاقات میں کارگل سے متعلق بات ہو رہی تھی۔حامد میر کے مطابق جنرل مشرف نے جب دعوی کیا کہ اس پلان سے کشمیر میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے تو ضیا الدین کا خیال ان سمیت زیادہ شرکا سے مختلف تھا اور انھوں نے اس وقت جنرل پرویز مشرف کو کہا کہ جنرل صاحب آپ عوام کو فتح کر سکتے ہیں، کشمیر کو فتح نہیں کر سکتے۔
محمد ضیا الدین کی صحافتی زندگی سے جڑی وابستگی کا ایک اور قصہ سناتے ہوئے سینیئر صحافی ناصر ملک نے بتایا کہ جب کوئی نیا رپورٹر بھرتی کرنا ہوتا تھا تو ضیاالدین سینیئر لوگوں کی ڈیوٹی لگاتے تھے کہ بیک گراوئنڈ چیک کریں۔
ضیاالدین کہتے تھے کہ خبر بنانے میں اگر کوئی کمزوری ہو تو خیر ہے، لیکن اخلاقی کمزوری نہیں ہونی چاہیے، بندہ کرپٹ نہیں ہونا چاہیے۔ کمال صدیقی کہتے ہیں کہ ضیاالدین کی زندگی میں کبھی بھی ان پر کوئی الزام نہیں لگا سکا اور سب ہی اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ ان کی ایمانداری پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ناصر ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ ضیا الدین بطور ایڈیٹر اپنے کام پر دوستی کو بھی اثر انداز نہیں ہونے دیتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈان اخبار میں ایک سیاست دان جن کی ضیا الدین سے دوستی تھی اکثر اپنی خبریں لگوانے کے لیے دیتے تھے لیکن میں نے بطور نیوز ایڈیٹر کبھی ان کی خبر نہیں چھاپی کیوں کہ مجھے علم ہوا کہ دیگر اخبارات میں وہ اپنی خبر لگوانے کے لیے لفافے بھی دیتے تھے۔
کئی بار اس سیاست دان نے دفتر آکر ضیال الدین سے میری شکایت کی۔ ضیاالدین مجھے بلاتے تھے اور ان کے سامنے پوچھتے تھے کہ خبر کیوں نہیں لگائی تو میں کوئی نا کوئی بہانہ کر دیتا لیکن اگلے دن پھر خبر نہیں لگاتا تھا تو ضیاالدین نے کبھی مجھ سے نہیں پوچھا کہ تم نے میرے دوست کی خبر کیوں نہیں لگائی۔\
کمال صدیقی کے مطابق محمد ضیاالدین نے کبھی بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور نئے صحافیوں کو عملی طور پر اس کا ثبوت بھی دیا۔