سینیٹ میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوٹ ایکٹ منسوخ کرنے اور میڈیکل کمیشن تحلیل کرنے سے متعلق بلز کثرت رائے  سے منظور


اسلام آباد(صباح نیوز)سینیٹ میں فیڈرل میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوٹ ایکٹ منسوخ کرنے اور پاکستان میڈیکل کمیشن تحلیل کرنے سے متعلق بلز کثرت رائے کی بنیاد پر منظور کرلئے گئے، قومی  کمیشن برائے حقوق طفل ایکٹ میں ترمیم کے بل کو بھی منظور کرلیا گیا، میڈیکل شعبے سے متعلق بلز کی پاکستان تحریک انصاف نے شدید مخالفت کرتے ہوئے ایوان میں احتجاج کیا، ایجنڈے اور بلز کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں اور احتجاج  کیلئے چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے

بعد ازاں پی ٹی آئی ارکان احتجاجاً واک آئوٹ کرگئے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ کی جگہ نئے قانون کیلئے مخنث  کے حقوق سے متعلق چار ترمیمی بلز قائمہ کمیٹی  انسانی حقوق کے سپرد کردئیے گئے۔ جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کو  رد کرنے کا مطالبہ کردیا۔ پیر کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین  صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا اجلاس کی کارروائی کے دوران حیران کن طورپر پی ایم ڈی سی کی ازسر نو تشکیل  سے متعلق بل میں جماعت اسلامی کے رہنما  سینیٹر مشتاق احمد خان کی ترامیم کی وفاقی وزیرصحت  عبدالقادر پٹیل نے  کمیٹی میں حمایت کے برعکس ایوان میں مخالفت کردی۔

اجلاس میں تحریک انصاف کے رہنما  سینیٹر فیصل جاوید نے قومی کمیشن برائے طفل  ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا جسے متفقہ طورپر منظور کرلیاگیا۔ چیف وہیپ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے فیڈرل میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوٹ ایکٹ 2003کی تنسیخ سے متعلق  پمز بل  پیش کیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے شدید مخالفت کی ۔ تحریک انصاف کے ارکان نے  ایجنڈ اور بلز پھاڑ کر پھینک دئیے  اور ایوان میں ڈاکٹر عاصم نا منظور ، امپورٹڈ حکومت نا منظور ، گو حکومت گو کے نعرے لگا دئیے۔ اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی میں بل کو  منظور کرلیا گیا بعدازاں سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی ازسر نو تشکیل کا  بل پیش کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے  شدید احتجاج کیا۔ بل کے تحت پاکستان میڈیکل کمیشن ختم ہو جائے گا۔

سینیٹر  مشتاق احمد خان کی ترامیم کی وزیر صحت نے مخالفت کردی۔ محرک کے مطابق کمیٹی میں حکومت نے ترامیم سے اتفاق کیا تھا جبکہ سینیٹر پلوشہ  اپنی ترامیم سے  دستبردار ہوگئیں۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے  بیشتر شقوں میں ترامیم پیش کیں۔ قائد ایوان وزیر خزانہ  سینیٹر اسحاق ڈار بھی موجود تھے۔ حکومت کی جانب سے وزیر مملکت قانون شہادت اعوان  نے بل کی حمایت کی۔اپوزیشن لیڈر شہزاد وسیم نے کہاکہ ترامیم میں بحث کیلئے قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ شاید یہ ڈاکٹر عاصم کیلئے بیٹھے ہیں ایوان کو تماشا بنا دیا گیا ہے۔ سینیٹ کے وقار کو دائو پر لگایا جارہا ہے۔ پہلے ہی سینیٹ کے بارے میں قانون سازی کے حوالے سے اعتراضات اٹھ رہے ہیں۔ پرچیوں پر ملک چل رہا ہے ، پرچیوں پر قانون سازی ہورہی ہے، صبح  پرچی آتی ہے   اور یہ بل لیکر ایوان میں آجاتے ہیں ۔ قانون سازی کو روندھا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ ربڑ اسٹمپ نہیں ہے مگر اسے یہ سمجھ کر اس کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔

چیئرمین سینیٹ نے تحریک انصاف کے  ارکان کے  شور شرابے ، ہنگامہ آرائی کے دوران شق وار بل کی منظوری لی تمام ترامیم کثرت رائے سے منظور کرلی گئیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے  ارکان احتجاجاً واک آئوٹ کرگئے۔ بل کو پی ٹی آئی  کے ارکان عدم موجودگی میں  منظور کرلیا گیا ۔ قبل ازیں ایوان میں مفت اور لازمی تعلیم کے ایکٹ، تحفظ ماحولیات ایکٹ، توشہ خانہ، مینجمنٹ اینڈ ریگولیشن  قانون وضع کرنے کا بل، اسلام آباد کی بلدیاتی حکومت دستور میں ترمیم کا بل پیش کیا گیا ۔

اہم بلز مخنث کی تعریف اور ان کے حقوق سے متعلق  چار نئے بلز شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز، مسلم لیگ ن کے  پیر صابر شاہ، جے یو آئی کے رہنما کامران مرتضیٰ اور جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد نے بلز پیش کیے۔

جماعت اسلامی کی طرف سے خنثہ افراد کے تحفظ ریلیف اور بحالی کے حقوق اور ان کی بہبود کے جامع قانون کا بل پیش کیا گیا جس کے تحت ٹراس جینڈر ایکٹ تحلیل ہو جائے گا جبکہ حکومتی جماعتوں اور پی ٹی آئی نے اسی ایکٹ میں ترامیم  کے بل پیش کیے۔ تاہم جے یو آئی کی طرف سے  ٹرانس جینڈر ایکٹ رد کرنے کا مطالبہ کردیا گیا۔ ترامیمی بلز میں کسی خواجہ سراء بچے کی جوان ہونے تک کفالت کی ذمہ داری  والدین پر ہوگی ۔ محرکین نے کہاکہ والدین  ایسے  بچے کو لاوارث چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ بچہ گرو کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور وہ اسے  سوسائٹی کو گمراہ کرنے اور بھیک منگوانے کیلئے  استعمال کرتے ہیں جو والدین ایسے  بچے کی کفالت کی ذمہ داری نہیں لیں گے قانون کے مطابق جوابدہ ہوں گے۔جبکہ مخنث افراد کی تشریح بھی کردی گئی ہے ۔ ٹرانس جینڈر کی جگہ لفظ” انٹرسیکس” لکھا جائے گا۔

چیئرمین سینیٹ نے  بلز انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کردئیے جبکہ سینیٹر محسن عزیز نے ایک بار پھر ماضی میں اس بلز کی منظوری کے حوالے سے ندامت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم سے جو کوتاہی ہوئی ہے اس پر معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔