سری نگر(کے پی آئی) کشمیر دشمن بھارتی پالیسیوں کے باعث جموں وکشمیر میں سیب کی صنعت خطرے میں ہے چونکہ کشمیری سیب کو بھارتی منڈی میں پہنچنے سے روکا جارہا ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں3.33 لاکھ ہیکٹر اراضی پر اس سال سیپ کی شاندار پیداوار سے سالانہ تقریبا 12000 کروڑ روپے کی آمدنی متوقع تھی تاہم پھل منڈیوں میں نہ پہنچنے کی وجہ سے پھل کاشتکاروں کو ستمبر کے مہینے میں تقریبا 5 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) نے حکام سے سرینگر جموں ہائی وے پر پھلوں سے لدے ٹرکوں کی بغیر کسی پریشانی کے نقل و حرکت کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔کے سی سی آئی کے صدر شیخ عاشق نے سرینگر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکام کو ایک طریقہ کار کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ ٹرکوں کی آمدورفت پورے سیزن میں آسانی سے چل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی وے کا مسئلہ حل ہونے تک وادی کشمیر کی معیشت کو نقصان ہوتا رہے گا
بھارتی اخبار کے مطابق کشمیر کے سیب کسانوں کو سڑک پر اترنا ہی پڑا۔ سیب اور دیگر سامانوں سے لدے ٹرک ہفتہ بھر سے سری نگر-جموں شاہراہ پر کھڑے تھے۔ کسانوں کا غصہ پھوٹ پڑا اور جیسا کہ سوشل میڈیا میں وائرل ویڈیو میں دکھائی دے رہا ہے، کسان پرزور انداز میں مخالفت درج کرانے کے لیے سیب سے بھری پیٹیاں نذرِ آتش کر رہے ہیں۔دراصل گزشتہ تقریبا 2 ہفتہ سے سیبوں سے بھرے ٹرک شاہراہ پر کھڑے تھے۔ اس دوران سیب سڑنے لگے اور اپنی آنکھوں کے سامنے پھل خراب ہوتے دیکھ کر کسانوں کی ناراضگی پھوٹ پڑی۔ حالانکہ پیر کی شام ان ٹرکوں کو آگے جانے کی اجازت دے دی گئی، لیکن اس دوران سیب کسانوں کو کتنا نقصان ہوا، اس کا اندازہ فی الحال نہیں لگایا جا سکا ہے۔جنوبی کشمیر میں شوپیاں کے سیب کسان 55 سالہ میر محمد امین کے باغوں میں ہر سال تقریبا 4000 پیٹی سیب کی پیداوار ہوتی ہے۔ ان کے 5 ایکڑ کے باغ میں اس بار اچھی پیداوار ہوئی ہے اور سیب کا معیار بھی اچھا رہا۔ اچھی قیمت ملنے کی امید میں میر محمد نے اپنی پیداوار کو کئی ٹرکوں میں لادا اور برآمدگی کے لیے اسے جموں کے لیے روانہ کیا۔ لیکن شاہراہ پر پہنچتے ہی ان کے ٹرکوں کو روک دیا گیا۔ یہ ٹرک تقریبا 8 دن تک وہاں پھنسے رہے۔
میر محمد کہتے ہیں کہ ہر ٹرک میں کم از کم 4 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ایک پیٹی سیب پیدا کرنے میں تقریبا 500 روپے کا خرچ آتا ہے، اور ہر ٹرک میں کم از کم 1200 پیٹی سیب تھا۔ وہ افسردہ دل سے کہتے ہیں بہت بڑا نقصان ہو گیا۔دراصل 295 کلومیٹر طویل سری نگر-جموں شاہراہ بند کردی جاتی ہے ۔ اس کے سبب پوری شاہراہ پر گاڑیوں کی آمد و رفت روک دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی فوج کی گاڑیوں کی آمد و رفت سے بھی حالات مزید مشکل ہو جاتے ہیں، کیونکہ فوجی گاڑیوں کو آمد و رفت کو دیگر گاڑیوں کے مقابلے ترجیح دی جاتی ہے، امین بتاتے ہیں ہمارے پھل ملک بھر کی منڈیوں میں تب تک پہنچ جانے چاہئیں جب تک وہ تازہ ہیں، کیونکہ اگر ان کی تازگی ختم ہو جاتی ہے تو کافی نقصان ہو جاتا ہے۔ امین کا کہنا ہے کہ اس طرح اعلی معیاری سیب بھی سی-گریڈ کا بن جاتا ہے، جس کی اچھی قیمت نہیں ملتی ہے۔
کشمیر وادی فروٹ گروورس کم ڈیلرس ایسو سی ایشن کے سربراہ بشیر احمد بشیر بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پھلوں سے لدے ٹرکوں کا شاہراہ پر پھنس جانا کافی نقصان دہ ہوتا ہے، کیونکہ سیب خراب ہو جاتے ہیں اور قیمتیں گر جاتی ہیں۔ بشیر نے بتایا کہ پہلے تو افسر قومی شاہراہ پر یکطرفہ ٹریفک چلانے کی اجازت دے دیتے تھے۔ لیکن جس دن سری نگر سے جموں کے لیے راستہ کھلتا ہے، اس دن فوجی گاڑی آ جاتے ہیں اور پھلوں کے ٹرک وہیں کے وہیں کھڑے رہ جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پھلوں کو بہت دنوں تک ٹرکوں میں نہیں رکھا جا سکتا، کیونکہ ٹرکوں کو پلاسٹک شیٹ سے ڈھکا جاتا ہے۔ اس کے سبب ٹرک کے اندر گرمی بڑھتی ہے جس سے کی اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی سیب سڑ جاتا ہے۔پھل پیداوار کرنے والوں کا ایک اور مسئلہ ہے۔ وہ ہے ایرانی سیب۔
بشیر نے بتایا کہ ایرانی سیب سستا ہوتا ہے کیونکہ اسے غیر قانونی طریقے سے درآمد کیا جاتا ہے اور اس پر کوئی ٹیکس نہیں لگا ہوتا۔ انھوں نے بتایا کہ ایرانی سیب اور کشمیری سیب میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔ اسی لیے لوگ ایرانی سیب کو پسند کرتے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001 میں جموں و کشمیر میں تقریبا 2.21 لاکھ ہیکٹیر میں سیب کا پروڈکشن ہوتا تھا جو اب بڑھ کر تقریبا 3.33 لاکھ ہیکٹیر ہو گیا ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں معاشی معاملوں کے محقق اعجاز ایوب کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی مجموعی جی ڈی پی میں سیب پروڈکشن کی شراکت داری تقریبا 7 فیصد ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس سے سالانہ تقریبا 12000 کروڑ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کام میں لگے لوگوں کی تعداد بہت بڑی ہے۔ حال کے معاشی سروے کا حوالہ دیتے ہوئے ایوب نے بتایا کہ سیب کے کاروبار میں کم از کم 35 لاکھ کشمیری روزگار سے جڑے ہوئے ہیں۔
ایوب نے اپنے تجزیہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سیب پیدا کرنے والے کسانوں کے لیے بینکوں سے قرض لیتے ہیں، اور اگر ان کی پیداوار وقت پر نہیں فروخت ہوگی تو وہ بینک کا قرض نہیں ادا کر پائیں گے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پیداوار کو ہوائی راستہ سے منڈیوں میں بھیجنا کافی مہنگا ہے اور ریل ٹرانسپورٹیشن ہے نہیں۔ ایسے میں سڑک کا راستہ ہی واحد طریقہ ہے۔ لیکن سری نگر-جموں شاہراہ اس کاروبار کی سب سے کمزور کڑی کی شکل میں سیب کسانوں کو پریشان کرتا ہے۔