اسلام آباد(صباح نیوز)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ، ملک سے اشرافیہ اور مافیا کی اجارہ داری کو ختم کریں گے، ہمیں قانون کو سپریم بنانا ہو گا ۔وزیر اعظم عمران خان کا امریکی اسلامی اسکالر شیخ حمزہ یوسف کو انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ میں نے کاکافی متغیر زندگی گزار ی ہے، ایسا شخص جس نے تعلیم مکمل کی ، ڈگری حاصل کی اور بیک وقت بین الاقوامی کرکٹ بھی کھیلی، عام طور پر جب آپ کوئی کھیل عالمی سطح تک کھیلتے ہیں تو آپ کو بہت زیادہ توجہ مرکوز رکھنی پڑتی ہے اور سبقت لے جانے کے لئے اپنے ملک سے بہترین بننے کے لئے آپ کو بہت مرتکز رہنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے میں عام طور پر تعلیم حاصل کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے، آپ دونوں کام ایک ساتھ نہیں کرسکتے، زیادہ تر بین الاقوامی کھلاڑی در حقیقت اپنی تعلیم مکمل نہیں کرتے کیونکہ میں نے دونوں ہی کام کر لئے اس وجہ سے میرے سامنے زندگی کا ایک بڑا منظر نامہ تھا، اگر آپ سارا وقت کھیلنے میں ہی گزار دیں اور آپ کے سامنے زندگی کا کوئی دوسرا نقطہ نظر ہی نہ ہو تو آپ کے لئے وہی کھیل سب کچھ بن جاتا ہے ، اس میں جب آپ کا میابیاں سمیٹتے ہیں تو آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے دنیا فتح کر لی ہے اور ہمیشہ یہ امکان ہوتا ہے کہ آپ میں غرو رآجائے، کیونکہ آپ بہت سے کھلاڑیوں سے بہتر ہوتے ہیں ، یہ ایک فطری بات ہے کہ جب آپ کسی کھیل میں کامیابیاں سمیٹیں اور بلندیوں پر پہنچ جائیں اور محسوس ہو کہ دوسرے اتنے بہتر نہیں ہیں جتنا کہ آپ، کیونکہ کھیل ہی آپ کی دنیا ہوتی ہے، یہ امکان ہوتا ہے ، جو میری نظر میں کوئی بدترین صفت ہو سکتی ہے،تو وہ تکبر ہے اور آپ متکبر بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب میں نے تقریباً دو دہائیوں تک بین الاقوامی کھیلوں میں حصہ لیا اور اس عرصہ میں آپ بہت سے اتار چڑھائو سے گزرتے ہیں یہ بھی آپ کو کافی سکھاتا ہے، جب آپ ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں آپ اپنی ذات کا تجزیہ کرتے ہیں، جب آپ اس اتار چڑھائو سے گزرتے ہیں ، جب آپ عروج پر جاتے ہیں تو اور پھر کوئی دھچکے لگتے ہیں ،20سالوں میں مجھے بھی بہت سے دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے بہت سے کامیابیاں بھی سمیٹیں مگر بہت سے دھچکے بھی لگے، آپ کی زندگی کے مشکل آپ کو بہت کچھ سکھاتے ہیں، اس لئے جب آپ عروج پر پہنچتے ہیں تو آپ کے پائوں زمین پرہی رہتے ہیںکیونکہ آپ جان چکے ہوتے ہیں کہ عروج ہمیشہ قائم رہنے والا نہیں ہے ، ایک تو یہ چیز ہے ، تاہم اپنی زندگی کے بعد کے ادوار میں،اپنے کھیلوں کے کیریئر کے آخری دنوں میں جب مجھے اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑے تحفہ یعنی ایمان کی دولت سے نوازا ، مجھے کبھی بھی اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ لوگوں کی جانب سے کسی شخص پر مذہب یا ایمان کے معاملے میں زبردستی کی جاسکتی ہے کیونکہ میرے نزدیک ایمان کی دولت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عنایت ہوتی ہے۔
ہر کسی کو ایمان کی دولت نصیب نہیں ہوتی اور جب آپ اس دولت سے مالا مال ہو جائیں توزندگی کے بارے میں آپ کا نقطہ نظر مکمل طور پر بدل جاتا ہے، کیونکہ آپ کو یقین ہو جاتا ہے کہ کامیابی ، عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور یہ قرآن میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے ، جب ایک مرتبہ آپ یہ جان جاتے ہیں تو پھر جب آپ کو کامیابیاں ملتی ہیں تو آپ انہیں اللہ تعالیٰ کی عنایت قراردیتے ہیں کیونکہ آپ کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کامیابی اس کی منشاء سے ملتی ہے تو تکبر آپ کی زندگی سے غائب ہو جاتا ہے اور پھر سب سے اہم چیز جس پر آپ قابو پالیتے ہیں جو کسی انسان میں سب سے زیادہ تباہ کن خصلت ہوسکتی ہے وہ انسان کی انا ہے، اگر آپ انا کو قابو میں نہیں رکھتے تو یہ بہت تباہ کن ہو سکتی ہے اور میں نے دیکھا ہوا ہے کہ اس نے انسانوں کو تباہ کردیا، سچا ایمان آپ کی انا کو پوری طرح قابو میں رکھتا ہے ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہم تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ جب رومن جرنیل فتحیاب واپس لوٹتا تھا تو اور جب وہ مجمع سے تمام تعریفیں سمیٹ رہا ہوتا تھا تو اس کے پیچھے کھڑا ایک شخص اُسے بتا رہا ہوتا تھا کہ دیا رکھو تم ایک انسان ہی ہو۔انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ تین چیزیں اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہیں، پہلی چیز عزت اور ذلت ہے جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے کوئی آپ کو ذلیل نہیں کرسکتا اور نہ ہی عزت دے سکتا ہے، دوسرا یہ کہ آپ کو زندگی میں کتنا رزق یا دوسرے لفظوں میں کتنا پیسہ ملے گا آپ زندگی میں کتنا پیسہ کما لیں گے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے آپ فقط کوشش کرسکتے ہیں، یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے کہ آپ کتنا امیر ہوں گے، اور تیسرا زندگی اور موت ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ، میری نظر میں یہی تین پہلو ہمیں تشویش میں مبتلا کرتے ہیں، ہم مرنے سے ڈرتے ہیں، ہم خوفزدہ ہوجاتے ہیں کہ ہماری بے عزتی نہ ہوجائے یا ہم اپنے ذرائع معاش سے محروم نہ ہو جائیں ، میری رائے میں جب آپ کے پاس ایمان کی دولت اور آپ کو کامل یقین ہوکہ وہ چیزیں جوآپ میں سب سے زیادہ خوف پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اس لئے آپ پر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں واحد چیز کوشش کرناہے ۔
کامیابی تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، یہی بات میں نے ہمیشہ اپنی سیاسی جماعت کو بتا نے کی کوشش کی ہے، میں نے ہمیشہ انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کیونکہ جب میں سیاست میں آیا سیاست میں مافیاز ہیں، لوگ سیاست میں آنے سے ڈرتے تھے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ یا تو وہ مارے جائیں گے یا ان مافیاز کے ہاتھوں مار کھائیں گے، پہلا خوف تو درحقیت مرنے یا تھا اور دوسرا بے عزت ہونے کا تھا کیونکہ وہ طاقتور لوگ تھے، آپ جانتے ہیں کہ گذشتہ 20سالوں کے دوران میری کردار کشی کی گئی، چیزیں نکال کر میرے خلاف لائی گئیں، میری تصحیک کرنے کے لئے ہر قسم کے سکینڈلز اور جعلی خبریں لائی گئیں، اس تمام عرصہ میں جدوجہد کرنے کی وجہ ، 15سال تک تو بہت زیادہ کامیابی کے بغیر کوشش کرتے رہنے کی وجہ سے یہ میرا یقین تھا کہ کہ کوئی انسان میری بے عزتی نہیں کرسکتا چاہے وہ جو مرضی کہتے رہیں، اور دوسرا زندگی اور موت میرے ہاتھ میں نہیں ،میں نے یہ کینسر ہسپتال تعمیر کیا اورمیں نے دیکھا ہوا ہے کہ میرے دوست پوری صحتمند ہسپتال آتے تھے اور انہیں رسولی نکل آتی تھی اور چند ہی ماہ میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوجاتے تھے، مرجانے کا یہ ڈر بھی انسان کی صلاحیتوں کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور یہ انسانوں کے صلاحیت کے مطابق کامیابیاں حاصل کرنے کے راستے میں رکاوٹ ہے لیکن اہم بات جو آپ نے کہی تھی وہ فخرہے ، مجھے اپنی زندگی میں یہ احساس بھی ہوا کہ غیرت کا جذبہ انسان کی سب سے بڑی خصوصیات میں سے ایک ہے اور ہماری زبان میں اسے غیرت کہتے ہیں، یہ انسان کی ایک زبردست خصلت ہے۔
مجھے یاد ہے کہ میرا گھر تعمیر ہورہا تھا اور یہ سال کا گرم تین وقت تھا، میں گھر کودیکھ رہا تھا سورج شعلے برسا رہا تھا ، مزدور کا م میں مصروف تھے اور وہاں ایک نوجوان لڑکاتھا جس کی قمیض پسینے سے شرابورتھی اور ایک لمحے کے لئے بھی کام سے نہیں رکا جبکہ دیگر سایہ دار جگہوں پر سستاتے تھے اور پانی کا ایک گلاس پیتے تھے اور پھر کام کرتے تھے،دن کے اختتام پر جب اس نے کام ختم کیا تو میں اس کے پاس گیا اسے پیسے دیئے جواس کیلئے کافی بڑی رقم تھی ، تواس نے مجھ سے کہا سرآپ نے مجھے یہ رقم کیوں دی، تومیں نے اس سے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ تم کیسے کام کرتے ہو، اس پر اس مزدور نے کہا کہ جو کام میں نے کیا اس کی اجرت مجھے ملے گی اور آپ اپنی رقم واپس لے لیں، اس عام مزدور کیلئے میرے دل میں جو عزت آج ہے وہ بہت سے ان امیر لوگوں سے بہت زیادہ ہے جن سے میں اپنی زندگی میں ملا ہوں، جن میں یہ والی غیرت اور وقار موجود نہیں، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ ایسے لوگ جن میں عزت ووقار کا مادہ ہوتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیا ان کے پاس پیسہ ہے یا نہیں، وہ ضرور عزت کماتے ہیں اورآپ ان کی عزت کرتے ہیں،انسان کے اندر مال و دولت نہیں غیرت بہت ضروری ہے، میرے نزدیک امیر وہ ہے جو ضمیر کا سودا نہیں کرتا،با ضمیر شخص کسی کے سامنے نہیں جھکتا ۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی بھی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا، پاکستان کے لوگ باصلاحیت ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرٹ نہ ہو تو اشرافیہ وسائل پر قابض ہو جاتی ہے، ملک سے اشرافیہ اور مافیا کی اجارہ داری کو ختم کریں گے، قانون کی بالادستی کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، ہمیں قانون کو سپریم بنانا ہو گا۔