رابن رافیل جب سے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی و سنٹرل ایشیا تعینات ہوئی بھارتی میڈیا کی نفرت کا نشانہ بنی رہی۔ اس نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ (Disputed territory) قرار دیا۔ اقوام متحدہ میں ستمبر 1994 میں پاکستان کی طرف سے پیش کی جانیوالی قرارداد کی حمایت میں اس نے پاکستان میں امریکی سفیر سے فون پر گفتگو کی۔ قرارداد کشمیریوں پر مظالم کی مذمت پر مبنی تھی۔ اس کی اس گفتگو کو بھارتی خفیہ ایجنسی راء (Raw) نے ٹیپ کر کے امریکی حکام کو پہنچایا۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ کرس سری نواسن نے ریٹائرمنٹ کے بعد 2012 میں، 17 سال بعد اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ اس ریکارڈنگ کے بعد امریکی حکام سے احتجاج کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ پاکستان کی قرارداد کی مخالفت کریں۔ بھارتی وزیر خارجہ نرسیما راؤ نے بہت زور دیا، لیکن امریکیوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اگر ہم خلاف ووٹ دیں گے تو کشمیر میں دہشت گردی میں اضافہ ہو گا، البتہ انہوں نے حمایت نہیں کی۔ جب 2014 میں رابن رافیل کے خلاف ایف بی آئی کی انکوائری شروع ہوئی تو راء کی یہ ریکارڈنگ بھی اس کے خلاف استعمال کی گئی۔ بھارتی میڈیا اس دن سے رابن رافیل کو “Brazenly Pro- Pakistan Partisan” بے حیائی کی حد تک پاکستان کی طرفدار لکھتا چلا آ رہا ہے۔ رافیل کی وجہ سے ہی صدر بل کلنٹن کے دونوں ادوار میں کشمیر کا موضوع امریکہ پاکستان دو طرفہ مذاکرات میں اور بھارت پاکستان کے دو طرفہ مذاکرات میں بھی ایجنڈے کا حصہ بنا رہا ہے۔ یہ اہم پیش رفت بینظیر کے اپریل 1995 کے امریکہ کے دورے سے شروع ہوئی۔ انہی دنوں جب پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان پر لگائی گئی پابندیاں اٹھانے کیلئے کانگریس کی مدد چاہی اور براؤن ترمیم پیش ہوئی تو اس کو رابن رافیل اور بل کلنٹن نے بہت سپورٹ کیا۔ جس کی وجہ سے نومبر 1995 میں پاکستان کو ایک دفعہ کیلئے 368 ملین ڈالر کے اسلحے کی خریداری کی اجازت دے دی گئی۔ اس واقعے کے بعد تو بھارت کے میڈیا نے رافیل کے خلاف جیسے ایک محاذ بنا لیا اور اسے آج تک پاکستان کا اثاثہ (Pakistani asset) لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ 13 نومبر 1994 کو قندھار کی فتح کے بعد جب ملا محمد عمر کی حکومت قائم ہوئی تو اس واقعہ نے نہ صرف پاکستان کی تمام خفیہ ایجنسیوں کو حیرت میں ڈال دیا، بلکہ امریکہ سمیت اہم ممالک کے سفارت خانوں میں موجود خفیہ والے بھی حیران تھے کہ یہ معجزہ کیسے ہو گیا ہے۔ طالبان سے پہلے افغانستان میں خانہ جنگی عروج پر تھی، یہاں تک کہ پاکستان کے این ایل سی کے ٹرکوں کے ایک قافلے کو بھی اغوا کر لیا گیا تھا اور مجاہدین میں سے کوئی بھی پاکستانی حکام کی سنتا نہیں تھا۔ لیکن طالبان نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے این ایل سی کے پاکستانی قافلے کو چھڑوایا۔ طالبان کے بارے میں حیرت کا یہ عالم دو تین ماہ تک جاری رہا۔ کوئٹہ میں منعقد اعلی سطحی اجلاسوں میں خفیہ کے جگاوری اور افغان مجاہدین سے تعلق پر کیریئر بنانے والے بڑے بڑے افسران پوچھتے پھرتے تھے کہ یہ طالبان کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ یہ اس طرح کیسے فتوحات پر فتوحات حاصل کر رہے ہیں؟ انہوں نے وہاں اتنی جلدی امن کیسے قائم کر لیا ہے؟۔ 1986 سے 1990 تک میری قندھار کے پڑوس میں واقعہ چمن اور پشین میں کئی بار پوسٹنگ رہی تھی اور طالبان قیادت کی اکثریت انہی علاقوں میں موجود ہوا کرتی تھی، مگر خاموش اور پاکستانی ایجنسیوں سے خاصی دور۔ ایجنسیاں اسی لئے انکے بارے میں بہت کم جانتی تھیں اور مجھ سے بار بار معلومات حاصل کرتی رہتیں، خاص طور پر ملا محمد عمر کی پراسرار شخصیت کے بارے میں ہر کوئی نت نئے سوالات گھڑ کر لاتا۔ ٹھیک تین ماہ بعد، 13 فروری 1995 کو پاکستان میں موجود امریکی سفارت کاروں کا ایک وفد طالبان عہدیداروں سے ملنے قندھار گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں رابن رافیل بھی موجود تھی لیکن میری کوشش کے باوجود تصدیق نہ ہو سکی کیونکہ طالبان تو ان میں سے کسی ایک کو بھی پہچانتے نہیں تھے۔ امریکی وفد نے بار بار ان سے ملا محمد عمر، اور ان کی قیادت کے بارے میں سوالات کئے، مگر طالبان نے کسی بھی قسم کی معلومات دینے سے انکار کر دیا۔ ملاقات سے امریکیوں کا تاثر یہ تھا کہ طالبان کا رویہ امریکہ کے بارے میں مخالفانہ نہیں بلکہ دوستانہ قسم کا ہے۔ اس ملاقات کے ٹھیک ایک ہفتے کے بعد ایک رپورٹ کے مطابق ایک اہم امریکی سفارت کار پھر طالبان سے ملا یا ملی جس کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ بھی رابن رافیل تھی۔ اس اہلکار کی ایک رپورٹ بغیر نام کے، امریکہ کے شائع شدہ سکیورٹی پیپرز میں موجود ہے۔ ان “Unclassified” پیپرز کے مطابق طالبان امریکہ کی صاف گوئی کو پسند کرتے ہیں، لیکن پاکستان اور سعودی عرب کی حکومتوں کی دوغلی پالیسیوں پر انہیں بھروسہ نہیں ہے۔ اسی دوران میرے ساتھ بھی ایک اہم واقعہ پیش آیا۔ مجھے امریکی سفیر سائمن ڈی جونیئر کی جانب سے 1996 کے آغاز میں ایک دعوت نامہ موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ امریکی عوام اور حکومت کی خواہش ہے کہ میں امریکہ کا مطالعاتی دورہ کروں۔ یہ دورہ امریکہ کے وزیٹرز (visitors) پروگرام کے تحت تھا۔ اس پروگرام میں پاکستان سے گورنر جنرل غلام محمد اور صدرغلام اسحاق بھی امریکہ جا چکے تھے۔ یہ ایک بہت بڑا پروگرام ہے جو تمام ملکوں کے اہم لوگوں کو امریکہ اپنی مہمانی کے ذریعے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ مصر کے انوارالسادات اور بھارت سے اندرا گاندھی بھی اسی پروگرام کے تحت امریکہ یاترا کر چکی ہیں۔ پندرہ جون 1996 سے 16 جولائی 1996 تک ایک ماہ مجھے امریکہ کی لاتعداد ریاستوں میں گھمایا گیا اور وزارت خارجہ سے لے کر پینٹاگون تک ہر وزارت کا دورہ بھی کروایا گیا۔ بظاہر یہ دورہ ایک آٹھ رکنی گروپ کے ساتھ ہوتا رہا لیکن مجھ سے علیحدگی میں لاتعداد ایسی ملاقاتیں کی گئیں جن میں مجھ سے صرف اور صرف طالبان اور ملا محمد عمر کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ میری معلومات بھی واجبی سی تھیں اور ظاہر بات ہے طالبان نے خود کو خاصا محدود رکھا ہوا تھا، اس لئے میں ان کیلئے کوئی زیادہ سود مند ثابت نہیں ہو سکا۔ غرض امریکی طالبان کے ساتھ تعلقات بنانے کیلئے بہت ہی بے چین تھے اور مسلسل مذاکرات کئے جا رہے تھے۔ کئی سالوں پر محیط ان مذاکرات کا مرکزی کردار رابن رافیل ہی تھی، جو بار بار طالبان سے ملنے قندھار آتی جاتی رہتی اور کوئٹہ میں بھی لاتعداد لوگوں سے ملاقاتیں کرتی نظر آتی۔ انہی ملاقاتوں اور رابطوں کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ پاکستان میں امریکی سفیر تھامسن ڈبلیو سائمنز نے رابن رافیل کو لکھا کہ صدر کلنٹن کو بتایا جائے کہ طالبان کی خواہش ہے کہ وہ مغرب کے سامنے اپنا یہ تصور ختم کریں کہ وہ برے لوگ (Bad People) ہیں۔ معاملات یقیناً بہتر ہو جاتے مگر اسامہ بن لادن کی موجودگی نے مسئلہ الجھا دیا۔ اسامہ کو سوڈان سے امریکی سفیر ٹموتھی کارنی (Timothy Caney) نے جلا وطن کروایا تھا اور وہ سیدھا جلال آباد آ گیا تھا۔ جب طالبان نے کابل کے ساتھ جلال آباد پر بھی قبضہ کیا تو اسامہ طالبان سے پہلے ہی سے وہاں پر موجود تھا۔ کابل کی فتح کے صرف نو دن بعد ہی طالبان حکومت کو امریکی وزیر خارجہ وارن کرسٹوفر کا یہ پیغام پہنچایا گیا ہم طالبان سے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ اسکے نتیجے میں امریکی سفیر کی ملاقات طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ ملا غوث سے ہوئی۔ ملا غوث نے کہا کہ ہمارے ہاں موجود تمام جہادی کسی دوسرے ملک میں تخریب کاری میں بالکل ملوث نہیں ہیں اور ہم امریکیوں کو ان کے کیمپوں کا دورہ بھی کروا سکتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی پیشکش تھی جس کے بعد مذاکرات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جس کا مرکزی کردار بھی رابن رافیل ہی تھی۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز