سی پیک کے تحت بجلی منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے،خرم دستگیر


اسلام آباد(صباح نیوز)سی ٹی جی ایس اے آئی ایل نے پاکستان کے پاور سیکٹر اور اس کے مستقبل کے آؤٹ لک سے متعلق جائزہ رپورٹ جاری کر دی، و فاقی و زیر توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ سی پیک کے تحت بجلی منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے، توانائی کی قلت کو کافی حد تک دور کر دیا گیا ہے اور بجلی ہمیشہ ملکی ترقی میں رکاوٹ رہی جبکہ مشاہد حسین سید نے رپورٹ کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کی ضرورت پر زور دیا۔

چائنا تھری گورجز ساؤتھ ایشیا انویسٹمنٹ لمیٹڈ (سی ٹی جی ایس اے آئی ایل) نے پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے تعاون سے ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں بین الاقوامی نمایاں انڈسٹری کنسلٹنٹس، سماجی اور ماحولیاتی  شعبے کے ماہرین، الیکٹرک پاور انڈسٹری انٹرپرائززاور حکومتِ پاکستان کے حکام کے علاوہ طلبا اور اسکالرز نے شرکت کی ۔ اس فورم میں میں چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک)کے پاور پراجیکٹس کی کامیابیوں پر تبادلہ خیال کیا گیا اور “پاکستان کے پاور سیکٹر اور اس کے مستقبل کے آئوٹ لک کا جائزہ” کے عنوان  سے ایک رپورٹ کا اجرا کیا گیا۔

اس تقریب میں 150 سے زائد افراد نے شرکت کی جن میں وفاقی وزیر برائے توانائی انجینئر خرم دستگیر خان، چیئرمین پی پی آئی بی شاہ جہان مرزا ، چینی سفارت خانہ اسلام آباد کے پولیٹیکل انفارمیشن آفس کے ڈائریکٹر وانگ شینگ جی ، سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے دفاع اور پی سی آئی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید اور پاکستان میں چینی کاروباری اداروں کے سینئر ایگزیکٹوز شامل تھے۔ واضح رہے کہ سی ایس اے آئی ایل بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو(بی آر آئی)کے کردار کو فعال کرتی ہے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک)منصوبوں کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالتی ہے اور اس وقت سی پیک کے 3منصوبوں پر کام کر رہی ہے جن میں کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بھی شامل ہے۔

چائنا تھری گورجز کارپوریشن (سی ٹی جی)30 سال سے زیادہ کے تجربے کی حامل ہے اور یہ 30 سے زیادہ عرصے پاکستان میں کام کر رہی ہے جس میں اس کی توجہ صاف توانائی کے منصوبوں جیسے پن بجلی، ہوا کی طاقت اور شمسی توانائی کے استعمال کو ترقی دینے اور استعمال  پر مرکوز ہے۔ چائنا تھری گورجز کارپوریشن (سی ٹی جی) نے پاکستان کی توانائی کی منڈی میں قابل قدر عملی تجربہ حاصل کیا ہے اور پاکستان کے پاور سیکٹر پر گہرائی سے مطالعہ اور تحقیق کرکے خاطر خواہ نتائج حاصل کیے ہیں۔ اس تقریب میں “پاکستان کے پاور سیکٹر اور اس کے مستقبل کے آئوٹ لک کا جائزہ” کے عنوان سے  مرتب تحقیقی رپورٹ کا اجرا کیاگیا جو سی ٹی جی  نے مختلف تھنک ٹینکس خاص طور پر پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ(پی سی آئی)،

نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ)، سسٹینبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی)اور پاکستان کے پاور سسٹم سیکٹر کے  متعدد سینئر ماہرین اور اسکالرز کی مدد سے تیار کیا ہے۔اس رپورٹ میں چین پاکستان اقتصادی راہداری  کے تحت پاور پراجیکٹس کی تعمیر میں  بیش بہا عملی اور نظریاتی کامیابیوں کا منظم طریقے سے احاطہ کیا گیا ہے، پاکستان کے پاور انڈسٹری سیکٹر کی موجودہ صورتحال کا تجزیہ کیا گیا ہے اور سی پیک توانائی کے شعبے میں حاصل کی گئی کامیابیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔جبکہ مختلف  پروجیکٹس اور صنعت کی مستقبل کی ترقی کی راہوں کا بھی تعین کیا گیا ہے۔

اس اجلاس میں شریک پاکستانی ماہرین اور اسکالرز نے کہا کہ ماضی میں پاکستان میں بجلی کی فراہمی میں شدید قلت  کا سامنا تھا اسی لیے سی پیک کے تحت تعمیر و ترقی کے عمل میں بجلی کے بحران کے مسئلے کو حل کرنے پر توجہ دی گئی۔ چینی حکومت بھی اس عزم کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور پراجیکٹ پر گفت و شنید کے آغاز سے لے کر تعمیر اور پھر بجلی کی پیداوار تک سی پیک پاور پراجیکٹس تیزی سے ترقی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور پاکستانی عوام کی بجلی کی فراہمی میں اہم  تعاون کرتے ہوئے بڑی تیزی سے ترقی کے سلسلے کو آگے بڑھا رہے  ہیں۔

رپورٹ کی تقریبِ رونمائی  میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے توانائی (پاور ڈویژن)انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا کہ سی پیک کے آغاز کے بعد سے متعلقہ منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔ توانائی کے  شعبے میں چین نے چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک)کے تحت بجلی کے منصوبوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے تاکہ پاکستان کی گھریلو شہری رہائشی اور صنعتی بجلی کی طلب کو پورا کرنے میں مدد مل سکے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں توانائی کی قلت کو کافی حد تک دور کر دیا گیا ہے اور بجلی ہمیشہ پاکستان کی ترقی میں رکاوٹوں میں سے ایک رہی ہے اور چین نہ صرف توانائی کے مختلف وسائل کے موثر استعمال کے ذریعے پاکستان کی توانائی کی سپلائی کی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں کامیاب رہا ہے بلکہ مختلف قسم کے پاور پراجیکٹس کی تعمیر میں بھی پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ موجودہ صورتحال اور پاکستان کے پاور سیکٹر کی مستقبل کی ترقی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پاور سیکٹر میں  سی پیک تعاون کے بارے میں پاکستانی عوام  میں  شعور پیدا کرنے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں متعلقہ شعبوں کے لوگوں کو چینی اہلکاروں سے سیکھنا چاہیے اور سی پیک جیسے منصوبوں کی تعمیر کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان صنعتی تعاون کو مزید گہرا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ چین توانائی کے شعبے میں پاکستان کا ایک اہم شراکت دار ہے اور چین کا ترقیاتی تجربہ پاکستان کے لیے سیکھنے کے لیے ایک بہترین ماڈل ہے۔سی ایس اے آئی ایل کے چیف  ریپریزنٹیٹیو ژانگ جون نے اپنی تقریر میں کہا کہ چائناتھری گورجز گروپ پاکستان کے پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے پاکستان کے لیے سستی اور صاف توانائی فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے اور720 میگاواٹ کا حامل کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ جو پاکستان میں تھری گورجز گروپ کا ایک فلیگ شپ پروجیکٹ ہے کو حال ہی میں تکمیل  کو پہنچایا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کروٹ پراجیکٹ کی تعمیر کے گزشتہ 7 سالوں کے دوران کمپنی نے چین اور پاکستان کے انجینئرز، منیجرز اور ورکرز کو مل کر کام کرنے کا موقع فراہم کیا ہے اور کووڈ-19 وبا کے دوران بھی حفاظتی اقدامات کے ساتھ کام کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کمرشل آپریشن  ڈیٹ (سی او ڈی)سے54 دن شیڈول سے پہلے کروٹ پروجیکٹ نے پاکستان کے پاور گرڈ کو 1.3 بلین صاف اور سستی بجلی فراہم کی ہے اور موسم گرما میں بجلی  کی پیدوار شروع کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پاور سٹیشن موثر طریقے کے ساتھ کام کر رہا ہے جو پاکستان میں موسم گرما میں موثر پاور سیکیورٹی فراہم کر رہا ہے اور پاکستان کے سیلاب پر قابو پانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک چینی انجینئر کی حیثیت سے جس نے اس منصوبے میں سرمایہ کاری کے پورے عمل کو دیکھا ہے، انہیں اس بات پر بے حد فخر ہے کہ چین اور پاکستان کے پیشہ ور افراد نے اپنی مشترکہ کوششوں سے کامیابی حاصل کی ہے۔اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی سفارتخانہ کے پولیٹیکل انفارمیشن آفس کے ڈائریکٹر وانگ شینگ جی نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان کا پاور سیکٹر سی پیک کا سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا شعبہ ہے اور یہ ارلی ہارویسٹ کی ایک  بہترین مثال ہے جس سے ایک خصوصی اور بجلی کے بحران کو دور کرنے اور پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے ناقابل تلافی تعاون، خاص طور پر ایسے مشکل وقت میں جب کہ کووڈ-19 وبا اور سیلاب کے خلاف جنگ جاری ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے رپورٹ کو پاکستان کے پاور سیکٹر کا پالیسی پرائمر قرار دیا کیونکہ یہ پاکستان میں پاور پراجیکٹس کی خصوصیات کا بخوبی احسن طریقے سے احاطہ کرتی ہے اور پاور سیکٹر میں مواقع اور چیلنجز کے حوالے سے تفصیلی تجزیہ فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ پاور سیکٹر میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں حصہ ڈال سکے۔  انہوں نے چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو گہرے اور کثیر جہتی قرار دیا۔ ان کا  مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کو صرف سی پیک تک ہی محدود نہیں کیا جا  سکتا بلکہ اس کا دائرہ کار وسیع ہے یعنی  عوام کا عوام سے رابطہ، اقتصادی شراکت داری اور ایک دوسرے کے بنیادی مفادات  کے تحفظ پر مبنی ہیں۔جبکہ سی پیک کے منصوبوں کی تعمیر سے پاکستانی عوام کے لیے بڑی تعداد میں ملازمتیں پیدا ہوئیں اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری آئی ہے۔

ان تمام  پیش رفتوں نے پاکستان کی ترقی کے لیے اہم مواقع فراہم کیے ہیں اور چین اور پاکستان کے درمیان سدا بہار اسٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کو مزید مضبوط کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی معاشی اور سیاسی  خود مختاری کی بنیاد کے طور پر انرجی سیکیورٹی کی ضرورت پر بھی زور دیا اور اس ضمن میں یوکرین جنگ سے سبق حاصل کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ پی سی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفی حیدر سید نے تقریب کی نظامت کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ توانائی کے شعبہ میں خودمختاری کو فروغ دینے اور موسمیاتی تبدیلی کے نتائج کو کم کرنے کے لیے دیگر اداروں کے ساتھ شراکت داری جاری رکھے گا۔