جب نیلسن منڈیلانے 1994 کے دوران، ساؤتھ افریقہ میں اقتدار سنبھالا تو قائد اعظم کی وفات کو چوالیس برس گزرچکے تھے۔ دونوں لیڈر اپنے ملکوں کے بانی قائد اور دور رس عقل و فہم کے مالک تھے۔اِس تحریر میں ملک کی انتظامیہ کے حوالے سے دونوں عظیم شخصیتوں میں ایک قدرِ مشترک کا تذکرہ ہو گا۔
ساؤتھ افریقہ کی نسل پرست حکومت نے مقامی سیاہ فام آبادی کی مقبول سیاسی جماعت، افریقن نیشنل کانگریس پر 1960 میں پابندی لگا ئی۔ اس کے لیڈر نیلسن منڈیلا کو ستائیس سال تک جیل میں رکھا۔ نسل پرست حکومت کے آخری چند برسوں کے دوران، ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت تھی۔ نسل پرست حکومت کا مقامی آبادی سے سلوک جانوروں سے بدتر تھا۔انہیں سفید فام لوگوں کے علاقوں میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔ آزادی ملنے پر اقتدار،افریقن نیشنل کانگریس کو منتقل ہوا تو صدیوں سے نسل پرستی کا شکار، قیدو بند کی صعوبتیں جھیلنے والے، قومی رہنما سفید فام افراد پر مشتمل انتظامیہ کے اہل کاروں سے ظلم و ستم کا حساب چکانے کے لئے بے تاب تھے۔
اِس موقع پر، عظیم قومی رہنما، نیلسن منڈیلا کو احساس تھا کہ ملک کا انتظام چلانے کے لئے تجربہ کار، سفید فام انتظامیہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ پارٹی کی لیڈر شپ اختلاف کرتی رہی ، مگر نیلسن منڈیلا کی شخصیت اتنی بالا تر اور عظیم تھی کہ ان کی ہدایات نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ نیلسن منڈیلا نے مختلف شعبوں میں اہلیت کے حامل، سفید فام انتظامی افسران کو مکمل تحفظ کا یقین دلایا۔ خدشات دور ہوئے تو تجربہ کار اہل کاروں نے نئی حکومت کو مستحکم بنیاد پر استوار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
قائد اعظم بھی کئی دہائیاں پہلے، پاکستان کی آزادی کے بعد، نیلسن منڈیلا کی طرح، تجربہ کار انگریز افسران کی خدمات سے استفادہ کرنا چاہتے تھے۔ پاکستانی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف کا عہدہ جنرل میسروی کو سونپا گیا۔ اِسی طرح بہت سے سفید فام آئی سی ایس افسران سے درخواست کی گئی کہ وہ نئی حکومت میں انتظامی امور سر انجام دیں۔ ان میں سر فرانسس موڈی تھے جو برطانوی حکومت کے دوران، یو پی کے مختلف علاقوں میں انتظامی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد، قائد اعظم نے بطور گورنر جنرل، اگست 1947 میں انہیں پنجاب کا گورنر بنایا اور وہ اگست 1949 تک اِس عہدے پر فائز رہے۔
اِسی طرح ایک دوسرے برطانوی افسر فریڈرک چالمر بورن 1910 کے دوران برطانوی فوج میں شامل ہوئے اور جنگ عظیم اول کے خاتمے پر انڈین سول سروس کا حصہ بنے۔ وہ 1937 سے 1945 تک پنجاب میں مختلف عہدوں پر تعینات رہنے کے بعد، صوبہ سنٹرل پراونس(سی پی) اور صوبہ آسام میں گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ جب پاکستان وجود میں آیا تو قائد اعظم نے انہیں اگست 1947 میں مشرقی بنگال(جو ون یونٹ کے بعد مشرقی پاکستان بنا) کا گورنر تعینات کیا۔ وہ اگست 1947 سے 5اپریل 1950 تک اِس عہدے پر فائز رہے۔
ایک اور افسر جارج کنگھم بھی قائد اعظم کی نظروں میں آئے۔ وہ رگبی کے کھیل میں بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے اور برطانوی ٹیم کی کپتانی کر چکے تھے۔ انہوں نے 1911 کے دوران انڈین سول سروس میں شمولیت اختیار کی۔ دو دفعہ برطانوی دورِ حکومت میں شمال مغربی سرحدی صوبے (کے پی) میں گورنر کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے۔ پاکستان کے وجود میں آنے پر قائد اعظم نے انہیں کے پی کا گورنر تعینات کر دیا۔پاکستان کی مرکزی حکومت نے بھی کلیدی عہدوں پر برطانیہ سے تعلق رکھنے والے، آئی سی ایس افسروں کو خدمات سرانجام دینے پر مائل کیا ۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کا عہدہ اِس لحاظ سے بہت اہم ہوتا ہے اور اس کے دفتر میں افسران کی اہلیت اور قابلیت کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اِس ریکارڈ کو پرکھنے کے بعد، انتظامی عہدوں پر تقرریوں کی سفارش ہوتی ہے۔ پاکستان کی بانی لیڈر شپ نے، اِس اہم عہدے پر غیر جانبدار افسران کا تقرر ضروری سمجھا۔ یہی وجہ تھی کہ 1947 سے 1961 کے دوران Eric Franklin، Terence George Coen اور James Daniel Hardy آئی سی ایس افسران مختلف اوقات میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے عہدے پرفائز رہے۔
انڈین سول سروس، آزادی کے بعد سول سروس آف پاکستان میں تبدیل ہو گئی، مگر انتظامی افسران کی تربیت کے معیار میں کوئی کمی نہ کی گئی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی تقریبا دس سال، سی ایس پی افسران، سلیکشن کے بعد، حسب سابق آکسفورڈ یونیورسٹی میں مزید تعلیم کے لئے بھیجے جاتے۔ تربیتی اکیڈمی کی سربراہی ایک آئی سی ایس افسر Geoffrey Burgss کے سپرد رہی۔ وہ اِس عہدے پر 1950 میں تعینات ہوئے اور دس برس تک تسلسل سے یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ برطانوی دورِ حکومت کے بعد بھی پاکستان میں، ہر سروس کے لئے اکیڈمی اور مخصوص تربیتی مراحل کی تکمیل لازم تھی۔ چاہے فارن سروس ہویا فنانس سروس، ریلوے ہو یا پولیس ، سب پر یکساں توجہ تھی کیونکہ حکمرانوں کو اچھی انتظامیہ کی کلیدی اہمیت کا ادراک تھا۔ نیلسن منڈیلا اور قائد اعظم نے آزادی ملنے کے بعد،عوامی مقبولیت کے محدود سیاسی فوائد سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی بہتری کیلئے سوچا۔ دونوں لیڈر، باصلاحیت انتظامیہ کی اہمیت اور قدر محسوس کرتے تھے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سول انتظامیہ بتدریج غیر موثر اور ناکارہ ہوتی جار رہی ہے۔ کارکردگی میں تنزلی کا سلسلہ ایک مخصوص وقت پر شروع ہوا تو پھر رکنے کا نام نہ آیا۔ ایک اہم وجہ کا تعلق مقتدر طبقے کی قانون سے بالا تر رہنے کی خواہش سے منسلک ہے۔ اہل اقتدار کمیشن بٹھا دیتے ہیں جس کی مرتب کردہ رپورٹ، کچھ عرصہ بعد،طاق نسیاں کی زینت بن جاتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ