سونمرگ گاندربل میں زیڈ موڑ ٹنل ۔۔۔ تحریر: محمد شہباز

بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے سونمرگ گاندربل میں زیڈ موڈ ٹنل کا افتتاح کیاہے ۔جس کی تعمیر 2018 میں شروع کی گئی تھی۔ زیڈ موڑ ٹنل ضلع گاندربل میں 6.5 کلومیٹر لمبی 2 لین والی سڑک کے درمیان واقع سرنگ ہے۔ یہ سرنگ یا ٹنل مقبوضہ وادی کشمیر کو لداخ سے ملائے گی۔ سونمرگ کا یہ قصبہ وادی کشمیر کے برف پوش پہاڑوں کے اختتام اور لداخ کا علاقہ شروع ہونے سے قبل آتا ہے۔ اس سرنگ کا نام زیڈموڑ ٹنل رکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ دوسری سرنگ، جو تقریبا 14 کلومیٹر لمبی تعمیر پر مشتمل ہو گی ،زوجیلا درہ کے مشکل راستے کو بائی پاس کرتے ہوئے سونمرگ کو لداخ سے جوڑے گی۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری اور مجوزہ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے چارٹر کی صریحا خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔کیونکہ ان تعمیراتی منصوبوں کا واضح مقصد فوجی استعمال کاحصول ہے،جو مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی ہے۔دوسرا اہم سوال یہ تعمیراتی منصوبے متنازعہ خطے میں مقامی آبادی کواعتماد میں لیے بغیربہت سارے خدشات کو جنم دیتے ہیں، جو بالاخر جبر اور پسماندگی میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔جس کا عملی ثبوت مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کا گزشتہ 77برسوں سے غاصبانہ اور ناجائز قبضہ ہے اور بھارت اس غیر قانونی و غیر آئینی قبضے کو ہر گزرتے دن کیساتھ دوام بخشنے کے نت نئے حربے اور ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے جہاں ان بھارتی منصوبوں میں شفافیت اور جوابدہی کی خامیوں پر سوال اٹھائے ہیں۔ وہیں مقبوضہ خطے میں مقامی آبادی کے حقوق اور معاشی تحفظ کے برعکس ایسی تعمیرات نہ صرف جمہوری طرز حکمرانی کے اصولوں کے برخلاف بلکہ اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی بھی بنیادی خلاف ورزی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بنیادی ڈھانچے کے منصوبے یہاں تعینات دس لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں کی نقل و حرکت کو آسان بنانے کی غرض سے تعمیر کیے جاتے ہیں۔ یہ اقدامات بھارت کی جانب سے اپنے فوجی قبضے کو دوام بخشنے کی غرض سے کیے جاتے ہیں جو پہلے سے غیر مستحکم صورتحال کو مزید ابتر اور بگاڑکا باعث ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں کی بڑھتی ہوئی نقل و حرکت یہاں بھارت کیساتھ اختلاف رائے رکھنے والوں پر مزید جارحانہ کریک ڈاون کا باعث بن سکتی ہے، جس سے کشیدگی میں کمی نہیں بلکہ مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔کیونکہ یہ تاثر ہر گزرتے دن کیساتھ گہرا ہوتا جارہا ہے کہ ایسے منصوبے ترقیاتی اہداف کے بجائے فوجی مفادات اور مقاصد کو پورا کرتے ہیں، بھارتی حکومت اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں اس کے زیر انتظام اداروں پر عوامی اعتماد پہلے ہی مجروح ہوچکاہے،مودی اور اس کے حواریوں کے یہ اقدامات مزید مجروح ہونے میں اضافے کا باعث ہیں۔بھارتی حکومت کے ان اقدامات سے اس بیانیے کو تقویت ملتی ہے کہ اس خطے کو اس کے رہائشیوں کے بجائے ایک دفاعی حیثیت کے طور پر زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔جس سے مکروہ بھارتی عزائم کی واضح عکاسی ہوتی ہے۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے تزویراتی طور پر اہم منصوبوں کا افتتاح ترقیاتی بیانیے کی آڑ میں ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں ہے،کیونکہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے چپے چپے پر بھارتی فوجی کیمپ اور چھاونیاں قائم ہیں،جن کا آپسی تال میل اور روابط پہاڑی دردوں اور جنگلوں و بیابانوں کے ہوتے ہوئے خاصا مشکل ہے اور اسی مشکل کو دور کرنے کیلئے بھارتی حکمران بالخصوص مودی ترقیاتی بیانیے کا ڈھول پیٹتے ہیں،مگر ترقیاتی بیانیے کے نام پر کشمیری عوام کو یہ چورن بیچانہیں جاسکتا،جو گزشتہ77 برسوں سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے برسر پیکار اور وہ بھارتی حکمرانوں کی نیت اور فتور سے بخوبی آگاہ ہیں۔جو ناقابل اعتبار اور ناقابل اعتماد ہیں۔جنہوں نے اقوام عالم کو گواہ ٹھرا کر کشمیری عوام کیساتھ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے حق خودارایت کا وعدہ کیا ہے ،جس پر 77 برس گزرنے کے باوجود عملدر آمد تو دور کی بات ،کشمیری عوام کے مطالبہ آزادی پر ان کے سینے گولیوں سے چھلنی کیے جاتے ہیں اور سوا پانچ لاکھ کشمیری حق خود ارادیت کے حصول کیلئے اپنی جانوں سے گزر چکے ہیں اور آج بھی سرزمین مقبوضہ جموں وکشمیر میں عظیم اور لازوال قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔جس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے چپے چپے پر پانچ سو سے زائد قبرستان شہدا سے بھرے پڑے ہیں۔ ایک طرف بھارت آزادی اور انصاف کے حصول کیلئے کشمیری عوام کی جائز امنگوں اور خواہشات کو دبانے کیلئے ظالمانہ حربے اور جبر کے تمام طریقے استعمال کر رہا ہے تو دوسری طرف مودی حکومت بے شرمی سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں نام نہاد ترقی کو فروغ دینے کا اعلان کر رہی ہے۔یہی واضح تضاد بھارتی حکمرانوں کی چغلی کھارہا ہے،کہ وہ مسئلہ کشمیر کواس کی ابتداء سے ہی حل کرنے میں سنجیدہ اور متفکر نہیں تھے۔بلکہ بھارتی حکمرانوں کی طرف سے وقتا فوقتا کیے جانے والے اس طرح کے اقدامات اس کے مذموم منصوبوں کا حصہ ہیں تاکہ مقبوضہ خطے پر اپنے غاصبانہ قبضے کو دوام بخشا جا سکے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے سنگین صورتحال اور بھارتی فوجی قبضے میں گھرا ہوا ہے۔اس تمام تر صورتحال اور تناظر میں مودی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کے تلخ زمینی حقائق کو چھپا کر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔بھارت جو خود کو دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کا دعوی کرتا ہے ، کشمیری عوام کی جائز سیاسی امنگوں اور جمہوری حقوق کو دبانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔اہل کشمیر کے بنیادی حقوق کا بھی احترام نہیں کرتا جن کی ضمانت اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں بھی دی جاچکی ہیں۔
کشمیری عوام جو بے پناہ وسائل کے مالک ہیں،ان سے بھی انہیں ایک ایک کرکے محروم کیاجارہاہے،مقبوضہ جموں وکشمیر جو قدرتی وسائل سے پر ہے،البتہ بھارت ان وسائل پر قابض ہے۔بجلی کے منصوبے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہیں اور ان سے مستفید بھارتی عوام ہیں،پورا پورا سال کشمیری عوام تاریکیوں میں ڈوبے ہوتے ہیں۔خاصکر سردیوں کے سخت ترین ایام میں کشمیری عوام بجلی کے حصول کیلئے ترستے ہیں،نتیجتا کشمیری عوام کو سرد ترین راتوں سے بچنے کیلئے انرجی کے دوسرے ذرائع پر انحصار کرنا پڑتا ہے ،جو ان کی زندگیوں کیلئے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں اور پوری پوری فیملیاں ایک ساتھ کمروں میں اکسیجن بھرنے کے باعث زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔مقبوضہ جموں وکشمیر جو پانی کے ذخائر سے بھی مالا مال ہے،اس پر بھی بھارت بیسیوں ڈیم تعمیر کرچکا ہے،تاکہ ایک تو پاکستان کی زرعی زمینوں کو بنجر میں تبدیل اور دوسرا بھارت کو مستقبل میں پانی کی کمی سے بچایا جاسکے۔جنگلات جو کہ کسی بھی معاشرے اور قوم کیلئے ریڈ کی ہڈی ہوا کرتے ہیں، جس سے سبز سونا بھی کہا جاتا ہے،بھارت نے کشمیری عوام کے اس سبز سونے کی بے دریغ لوٹ مار کی ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنی تعیناتی کے دوان بھارتی فوجی آفیسران نے جنگلاتی لکڑی سے اپنے لیے فرنیچر اور دوسرا سامان بنانے میں ایک دوسرے ہر سبقت حاصل کی ہے،یوں ایک تو اس سبز سونے کا صفایا کیا گیا،دوسرا جنگلات کی یہی کٹائی مقبوضہ جموں وکشمیر میں ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بنی ہے،ایک ایسی ریاست جہاں بھرپور بارشیں اور برفباری ہوتی تھی،اب نہ بارشیں ہوتی ہیں اور نہ ہی برف پڑتی ہے۔بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا۔انسانوں کا قتل عام تو کیا ہی کیا،اس ریاست کو تباہی سے دوچار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،امر ناتھ یاترا کے نام پر لاکھوں بھارتی ہندوئوں کو مقبوضہ جموں وکشمیر لاکر ہمالیہ کے اس نازک ماحول کو بھی بگاڑ دیا گیا۔05اگست 2019 کے بعد تو صدیوں پرانی ریاست کے حصے بخرے کیے گئے۔ اب مودی اور اس کے حواری دس لاکھ بھارتی فوجیوں کی سہولت کاری کیلئے مقبوضہ وادی کشمیر کو لداخ اور کرگل کیساتھ ملانے کیلئے زیر زمین سرنگوں کا جال بچھا کر اس سے ترقیاتی بیانیے کا نام دیکر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
بھارتی حکمران یہ نہ بھولیں کہ ان کی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود جموں و کشمیر اب بھی عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے۔جس کا عملی ثبوت کنٹرول لائن کی دونوں جانب اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی تعیناتی ہے،جس سے دنیا کی کوئی طاقت انکار نہیں کرسکتی۔یہی وجہ ہے کہ تنازعہ کشمیرابہام سے پاک ایک اچھی طرح سے قائم حقیقت ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادیں جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔جنہیں کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔اس تناظر میں بھارتی حکمرانوں کے مقبوضہ جموں وکشمیر کے دورے، یہاں بین الاقوامی سربراہی اجلاس، یا غیر ملکی سفیروں کی سیر مسئلہ کشمیر کی متنازعہ نوعیت اور حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتے ۔مودی کے مقبوضہ جموں وکشمیرکے دورے اور 5 اگست 2019 میں غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے کہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر گزشتہ 77 برسوں سے بھارت کے غیر قانونی اور جبری قبضے میں ہے۔جس کے خاتمے کیلئے کشمیری عوام 1947 سے قبل ہی جدوجہد کررہے ہیں۔جس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے چپے چپے پر پانچ سو سے زائد قبرستان شہدا سے بھرے پڑے ہیں۔بھارت کا تسلط پسندانہ رویہ اسے جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت تسلیم کرنے سے روکتا ہے۔اس تسلط پسندانہ رویئے کی بنیادی وجہ فوجی غرور اور گھمنڈ ہے ،البتہ اہل کشمیر نہتے ہونے کے باوجود غاصبانہ بھارتی تسلط اور فوجی غرور کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔کشمیری عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر تنازعہ کشمیر کا پرامن حل چاہتے ہیں۔ کشمیری عوام اقوام متحدہ کی لازمی رائے شماری کے مطالبے پر بھارت کے وحشیانہ جبر کو برداشت کر رہے ہیں۔7 دہائیوں سے زائد عرصے سے بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کرکے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مٹی پلید کی ہے۔مسئلہ کشمیر کا واحد قابل عمل حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیر میں آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے میں ہی مضمر ہے۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کشمیری عوام کیساتھ اپنے وعدوں کی پاسداری کیلئے بھارت پر بین الاقوامی سطح پر دباو ڈالنا چاہیے۔تاکہ مسئلہ کشمیر کو اس کے تاریخی تناظر ،اقوام متحدہ کی قراردادوں کیساتھ ساتھ اہل کشمیر کی جائز خواہشتا ت اور امنگوں کے مطابق حل کیا جاسکے،جھوٹے اور من گھڑت بیانیوں سے نہ پہلے تنازعہ کشمیر کو ختم کرنا ممکن تھا اور نہ ہی آئندہ ایسا ہوگا۔