آج بازار میں پابجولاں چلیں … تحریر کشور ناہید


یوں تو میری ہر اتوار مطالعہ کرتے گزرتی ہے مگر اس اتوار، نیرہ نور کے چلے جانے کی خبر نے مجھے زندگی کے وہ دن یاد کرا دیے کہ میٹنگ ہوتی تھی حلقہ اربابِ ذوق کی سال کے سال کہ میرا جی کو یاد کیا جاتا تھا۔ ہم لوگ نیرہ نور کو پروفیسر اسرار کے ساتھ وائی ایم سی اے ہال میں لے کر آتے تھے اور نیرہ سے میرا جی کا پسندیدہ راگ جے جے ونتی سنتے تھے۔ نیرہ کو دراصل پروفیسر اسرار میوزک سکھاتے تھے۔ وہ خود فزکس کے استاد تھے مگر کلاسیکی موسیقی ان کا شوق تھا۔ یہ وہی پروفیسر اسرار ہیں جنہوں نے ایک گھنٹے میں اقبال بانو کو میرے گھر میں فیض صاحب کی نظم لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے سکھائی اور ریہرسل بھی کروائی تھی۔

نیرہ نے ٹی وی پر شعیب ہاشمی کے پروگرام ٹال مٹول میں بچوں کے لئے گانے سے شروع کیا۔ ٹی وی پر خواجہ نجم نے نیرہ سے باقاعدہ گیت اور نعت تک ریکارڈ کروائی تھی ۔چند سال تک وہ فلموں کے لئے بھی گاتی رہی پھر اس نے فلموں کو چھوڑ کر فیض صاحب کو گانا شروع کردیا۔ فلموں میں گانے سے انکار کرنے پر میں نے اس سے ایک دفعہ پوچھا، اس نے کہا کہتے ہیں دو ہزار دوں گا اور پانچ سو روپے پکڑا دیتے ہیں۔ نیرہ گانے کو کھڑی ہوتی تو شعیب ہاشمی کہتا تھا یوں ہاتھ میں کاغذ پکڑ کر کھڑی ہوتی ہے جیسے کوئی ڈرا ہوا بچہ، اپنا سبق سنا رہا ہو۔ خواجہ نجم اور غضنفر نے ٹی وی اسٹیشن پر بیٹھے بیٹھے بے ساختہ کئی گیت لکھوائے اور اسی وقت نیرہ نے گائے۔ بہزاد لکھنوی کے گیت اور سہگل کے گائے گیت بھی وہ بہت پیار سے گاتی تھی۔ ہمیشہ سادہ رہنے والی نیرہ ٹی وی پر میک اپ بھی نہیں کرتی تھی۔

دو ہزار بارہ  سے نیرہ نے گانا چھوڑ دیا تھا۔ اسے بریسٹ کینسر ہوگیا تھا۔ اس نے تب باہر نکلنا بھی بند کر دیا تھا۔ اس کے پاس اپنے گائے ہوئے گانوں کا باقاعدہ رجسٹر تھا۔ اس میں دن، تاریخ اور رقم بھی لکھی ہوتی تھی۔ نیرہ کو یاد کرتے ہوئے میں نے اپنی تازہ کتاب بری عورت کھولی کہ اس میں ایک تصویر میں ظلِ ہما، کنول نصیر، مہناز، نیرہ اور میں کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ تصویر بھی خواجہ نجم نے ہی اس کتاب میں شامل کروائی تھی۔ میری ساری ساتھی چلی گئی ہیں اور مجھے اکیلا یادیں لکھنے کو چھوڑ گئی ہیں۔ سارا دن نیرہ کو سنتے سنتے، آنسو بھری آنکھوں کو اوپر اٹھا کر ٹی وی کی جانب دیکھا۔ اسکرین پر مٹیاری ہو کہ لسبیلہ، ہر جگہ پانی میں بہتے ٹرک ، گاڑیاں انسانی لاشیں اور ڈھے جانے والے گھروں کو ڈھونڈتے بے اماں لوگ ،قطار میں مرد اور برقعے میں عورتیں، راشن لیتی نظر آئیں۔ اتنے بڑے المیے کو ہر فرد کو 25 ہزار روپے دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ کا دبلا خزانہ پہلے ہی تار تار ہے اس میں کچھ نہیں رہے گا۔ میں پھر کہتی ہوں دنیا بھر کے اداروں کو آوازیں دیں کہ ان اجڑے لوگوں اور اجڑے شہروں کو بسانے میں مدد کریں۔ ہماری قوم بے مقصد باتوں میں بہت وقت ضائع کرتی ہے۔ مثلا جس دن سے امریکی سفیر کی اسناد، صدر صاحب نے منظور کی ہیں،ان کو تو پہیے لگ گئے ہیں کبھی کسی وزیراعلی سے مل رہے ہیں۔ کبھی وزیراعظم اور چیف آف اسٹاف سے۔ حد تو یہ ہے کہ کے پی میں وزیراعلی کو 36گاڑیوں کا تحفہ عطا کر رہے ہیں۔ وزیراعلی نے یقینا عمران خان سے پوچھ کر یہ تحفہ وصول کیا ہوگا کہ پنجاب کے وزیراعلی تو ٹیلیفون بھی عمران خان سے پوچھ کرکرتے ہیں۔ اس ہفتے کو سفیر صاحب نے بہت بھاری فنڈز، وزیراعلی سرحد کو دیئے، وہ بھی اجازت سے لئے گئے ہوں گے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ ایک طرف عمران خان خود امریکیوں کے سامنے صفائی پیش کر رہے ہیں۔ غالب کی زبان میں کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔ عمران خان نے ایک طرف شہباز گِل کو پھنسا دیا ہے، دوسری طرف دو صوبوں کی حکومتوں کو جیسی چاہیں پٹی پڑھا رہے ہیں۔ البتہ جس کام کی طرف توجہ نہیں وہ ہے سیلاب سے فنا ہو جانے والے شہروں کے شہر، جن کی وہی آبادی جن کو وہ راتوں کو جگا کر، اپنے جلسے کی رونق کا لطف لیتے ہیں۔ راجن پور، لسبیلہ کا ذکر ہی کیا، ہزاروں گھر بلوچستان، جنوبی پنجاب اور سندھ۔ یہ جو ڈپٹی کمشنرز کو 30لاکھ روپے، اس علاقے کی آبادی کے لیے دیئے جارہے ہیں۔ ان کو خدا کے لیے کیش مت دیجئے۔ ان کو چھت ڈالنے میں اور اپنا کاروبار نئے سرے سے شروع کرنے کے لئے، مثبت اقدامات کا کہیں۔

امریکہ کی نیت پر کوئی بھی اعتماد نہیں کرتا۔ یوکرین اس لئے برباد ہورہا ہے اور آئی ایم ایف نے پھر آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔ ہم نے چابی والی گڑیا کی طرح کا وزیر خزانہ رکھا ہوا ہے۔ وہ کبھی ہمارے گھروں کے بجلی کے بلوں میں ہزاروں روپے ڈال کر لکھ دیتاہے کہ یہ فیول چارجز ہیں۔ کبھی حکم آتا ہے کہ غیر ملکی اشیا کی خریداری بند۔ مہینے بھر بعد، حکم کہ سب اشیائے تعیش کی اجازت ہے۔ پھر حکم آتا ہے کہ پاکستان میں اب تک تو اسمگلنگ سے سونا آتا اور دکانوں پر دکانیں کھل رہی تھیں۔ اب پھر آئی ایم ایف کے کہنے پر باقاعدہ طور پرسونا درآمد کیا جائے گا۔ ادھر روٹیوں کے لالے پڑے ہیں۔ ادھر سونا کس کے لئے درآمد کیاجارہا ہے؟

اب تو ٹرینیں ٹھیکے پر دی جارہی ہیں۔ وہ مسافروں کی دلجوئی کرنے کے لئے چاہے بندر نچائیں یا کھسرے، آپ کو کیا تکلیف ہے، ٹھیکے میں تو اِدھرکا مال ادھر کیا ہی جاتا ہے۔

ویسے کمال کردیا، سندھ حکومت نے، انہوں نے وائس چانسلر لگانے کے لئے وہ تمام بندشیں مٹا دی ہیں جن میں درج تھا کہ آپ نے اتنے تخلیقی مقالے لکھے ہوں جو بین الاقوامی سطح پر شائع ہوئے ہوں۔ اتنے ڈاکٹریٹ کئے ہوں۔ سندھ حکومت نے یہ سب جنجال ختم کردیئے۔ اب کوئی للو پنجوبھی وائس چانسلر لگ سکتا ہے۔ حیرانی کی کوئی بات نہیں آخر مارشل لاؤں کے زمانے میں بہت سے جرنیل پرو چانسلر رہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ