اسلام آباد(صباح نیوز)وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں جوتاثر بن گیا ہے کہ پاکستان میں یا بھارت میں کوئی اسلام تلوار سے پھیلا ہے توایسا تو قطعی نہیں ہے۔ ملک میں اندرونی طور پر یہ ہمارے علماء کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی شدت پسندی کو مسترد کردیں، جو مذہب کے نام کے اوپر ہے۔ وہ مذہب جس کا مطلب ہی سلامتی ہے اوروہ نبیۖ جو کو ہم مانتے ہی پوری انسانیت کے لئے رحمت ہیں ان کے نام کے اوپر جس طریقہ سے سیاست کی جارہی ہے وہ بالکل مختلف ہے۔
ان خیالات کااظہار فواد چوہدری نے بین المذاہب امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم علماء اورمشائخ سے اپنی بات کے اوپر رہنمائی لے کر آگے چلنے والے لوگ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں پروزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی بھی تشریف رکھتے ہیں، جو کئی ٹوپیاں پہنتے ہیں، وہ پاکستان کے وزیر خارجہ توہیں ہی لیکن جو ہمارے مشائخ کا جوسلسلہ ہے اس میں ان کا جو قد ہے اور ان کی جو اپنی گدی ہے اس سے انکار ممکن ہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس خطے میں ہم بسے ہوئے ہیں جسے آج ہم مملکت پاکستان کہتے ہیں اس میں موجود جو ہمارے مذہبی عقیدے ہیں وہ بنیادی طورپر امن، آشتی، خانقاہوں اور درباروں سے نکلے ہیں۔ ہمارے ہاں جوتاثر بن گیا ہے کہ پاکستان میں یا بھارت میں کوئی اسلام تلوار سے پھیلا ہے توایسا تو قطعی نہیں ۔ ہم تو داتا علی ہجویری، بابافرید شکر گنج، بہائوالدین زکریااور ملتان کے جو صوفیاء کرام کے سلسلے ہیں ہم لوگ تو ان کے ماننے والے ہیں اوران کے وسیلے سے ہم اس عظیم مذہب سے روشناس ہوئے ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ یہ جوسارے صوفی تھے یا یہ ساری جو خانقاہیں ہیں ان کی بنیاد دو چیزوں پر تھی، ایک ان کی بنیاد داحدانیت تھی اور دوسری ان کی بنیاد انسانیت تھی، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں پر بھی رسول اللہ ۖ کو خطاب کیا گیا وہ رحمت اللعالمین کے نام سے کیا گیا ، کہیں پر بھی رحمت اللمسلمین نہیں کہا گیا، رسول اللہ ۖ کو ہمیشہ رحمت اللعالمین کہا گیا اوراس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہے کہ جو اسلام ہے اس کا تو مطلب ہی سلامتی ہے۔ سلامتی کو لے کر اور رسول اللہۖ کے رتبہ کو لے کر ہمیں آگے چلنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہوا یہ ہے کہ سیاست کی اتنی ملاوٹ ہو گئی ہے کہ ہر چیزن کو مسخ کر کے پیش کیا جاتاہے۔ میری علماء سے درخواست ہو گی کہ وہ اس چیز کے اوپر بہت غور کریں کہ وہ مذہب جس کا مطلب ہی سلامتی ہے اوروہ نبیۖ جو کو ہم مانتے ہی پوری انسانیت کے لئے رحمت ہیں ان کے نام کے اوپر جس طریقہ سے سیاست کی جارہی ہے وہ بالکل مختلف ہے جس طریقہ سے ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو بڑے فیصلے ہیں ، لاہور میں جو فسادات ہوئے اور پھر فیصل آباد میں جو دونوں فسادات ہوئے اور دونوں میں سپریم کورٹ نے قراردیا کہ جائیداد حاصل کرنے کے لئے توہین رسالت ۖ کا استعمال کیا گیا، اس سے بڑا ظلم کوئی ہوسکتا ہے، اس سے بڑی کوئی چیز ہو سکتی ہے کہ ہم اتنے بڑے رحمت سرکار دوعالمۖ کے نام کو اتنے چھوٹے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کریں۔ اس کے اوپر گفتگو کرنااور بات چیت کرنا علماء کا کام ہے، راستہ دکھانا علماء کاکام ہے،آگے لے کر جانا علماء کا کام ہے۔ہمارے وزیر اعظم جتنے بڑے عاشق رسولۖ ہیں اس میںمجھے کوئی شبہہ ہی نہیں، وہ جو بھی اقدام لیتے ہیں کوئی سیاسی مقصد کے لئے نہیں لیتے۔ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ ہم نبیۖ کو اپنے ماں، باپ ، اپنے مال اوراپنی ہر چیز سے بڑھ کر جانیں۔ ملک میں اندرونی طور پر یہ ہمارے علماء کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی شدت پسندی کو مسترد کردیں، جو مذہب کے نام کے اوپر ہے۔ اسلام تو نام ہی توازن کا ہے، اگر توازن نہیں ہو گا تو جو مذہب کی روح ہے وہ پوری نہیں ہو گی، یہ بحث یہاں پر ہمارا اپنا کام ہے کہ اندرونی طور پر اس بحث کو ہم لے کرآگے بڑھیں اورہمارے علماء اس کو لیڈ کریں جبکہ بیرونی جو عنصر ہے اقوام متحدہ ہے یا دیگر جگہوں پر حکومت کا کام ہے کہ وہ اس کو آگے لے کر بڑھے۔ گفتگو کیجیئے کیونکہ گفتگو سے ہی معاملات آگے بڑھتے ہیں۔