کراچی(صباح نیوز) امیر جماعت اسلامی سندھ وسابق ایم این اے محمد حسین محنتی نے حکمرانوں کی غلط وناکام معاشی پالیسوں نے عوام کی زندگی اجیرن بناکر رکھ دی ہے،عوام سے چائے کی ایک پیالی کم کرنے کی بات کرنے والے حکمرانوں کا وزیراعظم ہاؤس اورایوان صدر کے لیے مجوزہ بجٹ میں کروڑوں کا اضافہ عوام کے زخموں پرنمک پاشی کے مترادف ہے۔قیام پاکستان سے لیکر ابتک ملک وعوام کے خلاف سازشیں کرنے والی اشرافیہ کااحتساب ناگزیر ہے ،عوام بلدیاتی انتخابات میں باکردارلوگوں کو منتخب کریں جوان کی خدمت اورمسائل سے نجات دلانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے شکارپوراورجندودیرومیں بلدیاتی انتخابات کے جائزہ اجلاس اورامیدوروں کے اجتماعات سے خطاب کے دوران کیا۔امیرضلع عبدالرحمان منگریو،مقامی امیر عبدالسمیع بھٹی ،سابق امیرضلع ڈاکٹر محمود الٰہی ہکڑو،ناظم انتخابات ایڈووکیٹ اصغرعلی پہوڑبھی اس موقع پرموجود تھے۔امیرصوبہ نے یوسی شہپورجکھرو سے جماعت اسلامی کے بلامقابلہ منتخب کونسلر مولاناماجدعلی منصوری کو مبارکباد بھی دی۔انہوں نے کہاکہ سندھ سمیت پاکستان میں پانی کی کمی سے عوام خاص طورزراعت پیشہ لوگ سخت پریشان ہیں،سندھ کے بیراجوں میں پانی کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے ہے۔
ارسا کے مطابق سکھر، گڈو اور کوٹری بیراجوں میں پانی کی کمی 61 فیصد تک پہنچ گئی ہے کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔حکومت کو اس پرخصوصی توجہ اورمنصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔صوبائی امیر نے مزید کہاکہ وزیرخزانہ کا یہ بیان کہ ملک کودیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے سستی گیس وتیل پرپرسبسڈی واپس لیناہوگی سے سخت مایوسی ہوئی اس سے لگتا ہے کہ موصوف پاکستان کے وزیرنہیں بلکہ آئی ایم ایف کے مینیجر ہیں۔صرف عوام کو قربانی کابکراسمجھنے اورعالمی مالیاتی اداروں کے اشاروں پرناچنے والے حکمرانوں سے کسی خیرکی امید نہیں ہے۔ملک کی معاشی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے،
موجودہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمت پر سابق حکمرانوں کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی کو مرحلہ وار ختم کررہی ہے تو دوسری جانب ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات بھی کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔بجٹ دستاویزات کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ میں وزیراعظم ہاؤس کے انٹرنل اخراجات میں 6 کروڑ 40 لاکھ روپے اضافے کے ساتھ46 کروڑ 50لاکھ روپے کئے جارہے ہیں جو رواں مالی سال سے 6 کروڑ 40 لاکھ روپے زیادہ ہیںجبکہ پبلک اخراجات کیلیے 52 کروڑ روپے الگ کھے گئے ہیں۔اسی طرح ایوان صدر کے پرسنل اخراجات 61 کروڑ 10 لاکھ روپے کا تخمینہ تھا جس کو آئندہ مالی سال بڑھا کر 64 کروڑ 50 لاکھ روپے کیا جارہا ہے جبکہ ایوان صدر پبلک اخراجات کی مد میں رواں مالی سال اخراجات کا تخمینہ 40 کروڑ 50 لاکھ روپے تھا جس کو بڑھا کر 41کروڑ 10 لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
یہ اعدادوشمارحکمرانوں کے دعووں اورملک کو دیوالیہ بنانے والے دعووں کی سراسرنفی کرتے ہیں۔پاکستان تا قیامت قائم رہے گا ملک معاشی طور پرسری لنکا کی طرح دیوالیہ توہرگز نہیں بنے گا البتہ عوام تنگ آکر سری لنکا کی طرح حکمرانوں کا گریبان ضرور پکڑیں گے۔اس لیے حکمران مہنگائی کا طوفان اورعوام پرسارابوجھ ڈالنے کی بجائے غیرترقیاتی اخراجات وکرپشن کا خاتمہ سادگی وکفایت شعاری والی پالسیی اپناکرملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے اقدامات کریں۔