وفاقی اور صوبائی بجٹ کو مسترد کرتے ہیں، خیبر پختونخوا کا بجٹ بھی الفاظ کا گورکھ دھندا ہی ثابت ہوا ،پروفیسر محمد ابراہیم خان


پشاور ( صباح نیوز) امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ کے بعد خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کا مالی سال 23ـ2022 کا بجٹ بھی الفاظ کا گورکھ دھندا ہی ثابت ہوا ہے، وفاقی اور صوبائی بجٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینے کی بجائے انھیں سود اور ٹیکسز میں جکڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے بجٹ میں چالیس فیصد سے زائد رقم سود کی نظر ہوگئی، جبکہ صوبائی حکومت کے بجٹ میں بھی عام آدمی کو ریلیف دینے کی بجائے انہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی بیروزگاری اور بدامنی کی دلدل میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت نے یہ نواں بجٹ پیش کیا ہے لیکن بجٹ میں جو خوشنما دعوے اور وعدے کئے جاتے ہیں عملاً اس کے فوائد عام آدمی کو آج تک نہیں ملے۔ سابقہ قبائلی اضلاع کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے وقت قبائلی عوام کے ساتھ ایک بڑے ترقیاتی پیکج کا وعدہ کیا گیا تھا جس کے تحت قبائلی اضلاع کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور انہیں دیگر اضلاع کے برابر لانے کے لئے اگلے دس سالوں میں ایک ہزار ارب روپے کے ترقیاتی پیکج دینے کا اعلان کیا گیا تھا اور طے پایا تھا کہ وفاقی حکومت ہر سال ضم اضلاع کو 100 ارب روپے جبکہ صوبائی حکومتیں اپنی اے ڈی پی کا تین فیصد خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع کی ترقی کے لئے فراہم کریں گی لیکن پی ٹی آئی کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے گزشتہ تین سالوں میں بمشکل 56 ارب روپے ہی فراہم کئے ہیں جبکہ اسی دوران صرف وفاق نے 300 ارب روپے فراہم کرنے تھے۔ مختلف کیڈر کے سرکاری ملازمین اپنے مطالبات کے لئے سراپا احتجاج ہیں، حکومت کچھ ملازمین کو مستقل کرنے کے بجائے تمام ایڈہاک ملازمین کو مستقل کرے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے المرکزالاسلامی پشاور سے جاری کئے گئے اپنے بیان میں کیا۔ انھوں  نے کہا کہ انضمام کی شرائط میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ قبائلی اضلاع کو ترقیاتی پیکج ملنے کے بعد اگلے جنرل الیکشن میں فاٹا کے چھ قومی حلقے ختم کر دئے جائیں گے۔ بدقسمتی سے ضم اضلاع کو ترقیاتی فنڈز تو نہیں دیے گئے لیکن ان کے چھ حلقے ختم کردیئے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے کرپشن پر قابو پانے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے اور یہی وجہ ہے کہ آج صوبائی حکومت کے اہم منصوبوں بی آر ٹی اور بلین ٹری سونامی میں بڑے پیمانے پر کرپشن کے کیسز سامنے آئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں پٹرول کی قیمتوں میں بڑھتے ہوئے اضافے اور مہنگائی کے طوفان میں بھی صوبائی حکومت اپنے شاہانہ اخراجات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں اور ان حالات میں بھی پارٹی سربراہ قومی اسمبلی سے استعفیٰ کے باوجود وزیراعلیٰ کے سرکاری ہیلی کاپٹر میں جلسوں کے لئے سرکاری وسائل استعمال کر رہے ہیں اور اب مزید قانون سازی کر کے وزراء کے لئے سرکاری ہیلی کاپٹر اور کرائے پر ہوائی جہاز حاصل کرنے کا قانون بنایا جا رہا ہے۔ ایک طرف غریب عوام دو وقت کی روٹی کے لئے سرگرداں ہیں جبکہ دوسری طرف انصاف کی دعویدار حکومت قوم کے وسائل پر عیاشیاں کر رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ بجٹ میں عام آدمی کی حالت بہتر بنانے اور انھیں روزمرہ اشیاء خوردونوش رعایتی نرخ پر دینے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ جس کی وجہ سے خطِ غربت سے نیچے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور 50 فیصد سے زائد آبادی کی حکومت سے بجٹ میں ریلیف فراہمی کی امیدیں بھی ختم ہوگئی ہیں۔