سندھ ہائی کورٹ ، دعا زہرا کاظمی کی عمر کا تعین کرنے کیلئے میڈیکل بورڈ بنا نے کی ہدایت


کراچی (صباح نیوز)سندھ ہائی کورٹ نے پسند کی شادی کر کے کراچی سے جانے والی دعا زہرا کاظمی کی عمر کا تعین کرنے کے لئے میڈیکل بورڈ بنا نے کی ہدایت کردی۔

گزشتہ روز پنجاب کے ضلع بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں سے بازیاب کروائی گئی دعا زہرا کاظمی کواس کے شوہر ظہیر احمد سمیت سندھ ہائی کورٹ میں پیش کردیا گیا۔جسٹس جنید غفار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت دعا زہرا نے بیان حلفی ریکارڈ کروادیا۔ جبکہ عدالت نے کیس کی سماعت کل (بدھ)تک ملتوی کرتے ہوئے کیس کے تفتیشی افسر کو دعا زہرا کی عمر کا تعین کرنے کے حوالہ سے میڈیکل بورڑ بنا کر ڈی این اے ٹیسٹ کروانے اور عمرکا تعین کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے ۔جبکہ عدالت نے دعا زہرا کو پناہ شیلٹر ہوم بھجوانے کا حکم دیا ہے۔

سندھ پولیس نے سخت سیکیورٹی میں دعا زہرااور ان کے شوہر ظہیر احمد کو عدالت میں پیش کیا۔

عدالت لاتے ہوئے بھی دعا زہرا کے والدین نے اس سے ملنے کی کوشش کی تاہم پولیس نے ملنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ عدالت کی اجازت سے ہی والدین دعا زہرا سے مل سکیں گے۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے عدالت کو بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کا حکم تھا کہ دعا زہرا کو بازیاب کروا کر پیش کیا جائے تواس پر عملدرآمد کردیا گیا ہے تاہم10جون کو لاہور ہائی کورٹ نے بھی دعا زہرا کو طلب کررکھا ہے لہذا انہیں وہاں پر بھی پیش کرنا ہے جس کی وجہ سے انہیں یہاں پر جلدی پیش کیا گیا ہے۔

دوران سماعت جسٹس امجد علی سہتو نے دعا زہرا کو روسٹرم پر بلایا اور انہیں کٹہرے میں کھڑے کر کے ان کا بیان ریکارڈ کیا اور ان سے پوچھا گیا کہ ان کا نام کیا ہے، ان کی ولدیت کیا ہے اور کس نے اسے اغواکیا تھا۔ اس پر دعا زہرا نے عدالت کو بتایا کہ میرا نام دعا زہرا ہے، میری عمر 18سال ہے اور میں نے مرضی سے شادی کی۔

دعا زہرا کا کہنا تھا کہ میں اپنی مرضی سے ظہیر کے پاس گئی تھی اور اب ظہیر کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہوں۔ دعا زہرا کا کہنا تھاکہ اسے کسی نے اغوا نہیں کیا اور وہ اپنے شوہر ظہیر کے ساتھ رہتی ہے۔ عدالت نے دعا زہرا سے سوال کیا کہ مہدی کاظمی آپ کے کون ہیں،

اس پر دعا زہرا نے بتایا کہ مہدی کاظمی میرے والد ہیں تاہم میں اپنے والدین کے پاس واپس نہیں جانا چاہتی اور نہ ہی ان کے ساتھ ملنا چاہتی ہوں اور ظہیر کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہوں۔

اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ اس صوبے میں کوئی وقوعہ نہیں ہوا ہے ، پنجاب میں شادی کی ہے، لڑکی وہاں گئی ہے لہذااس صوبے کااس کیس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ جبکہ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ لڑکی کی عمر کم ہے ،ہم نے اغواکا مقدمہ درج کروایا تھا جس کی ابھی تحقیقات جاری ہیں۔

اس پر جسٹس جنید غفار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ابھی لڑکی نے بیان دیا ہے، اغوا کا مقدمہ تو ختم ہو گیا، ہمارے سامنے لڑکی کی بازیابی کا جو کیس تھا وہ درخواست بھی اب مسترد ہو چکی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ دعا زہرا کو حکم دیا جائے کہ وہ اپنے والدین سے ملاقات کرے۔ دعا زہرا کے والد نے عدالت کو بتایا کہ دعا زہرا کی عمر 14سال سے کچھ دن اوپر ہے اور اس حوالہ سے انہوں نے نادرا اور دیگر سرٹیفیکیٹس بھی عدالت میں پیش کئےجبکہ عدالت نے دعا زہرا سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے والدین سے ملنا چاہتی ہیں توانہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نہیں ملنا چاہتی۔

اس پر جسٹس جنید غفار نے ریمارکس دیئے کہ ہم لڑکی کو زبردستی نہیں کہہ سکتے کہ وہ والدین سے ملاقات کرے ، والدین یہاں پر کھڑے ہیں اور پریشان ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں لیکن ہمیں قانون کو دیکھنا ہے۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے استدعا کی کہ لڑکے ظہیر احمد کے حوالہ سے ہدایات جاری کی جائیں ۔اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ظہیر کا ہمارے پاس کوئی کیس نہیں ہے اوریہ اب پولیس کی صوابدید ہے کہ اسے کہاں رکھنا ہے اور اسے کون سی عدالت میں پیش کرنا ہے۔

عدالت نے دعا زہرا کی عمر کا تعین کرنے کے لئے میڈیکل بورڈ بنا کر ڈی این اے رپورٹ کل عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ جبکہ عدالت نے قراردیا ہے کہ اس دوران دعا زہرا پناہ شیلٹر ہوم میں رہیں گی۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل (بدھ)تک ملتوی کردی۔