کراچی (صباح نیوز)وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ایک گروپ کی تشفی کے سنگین اثرات ہوسکتے ہیں کیونکہ دیگر تنظیمیں بھی اسی طرح کا مطالبہ کر سکتی ہیں لہذا ان مسائل کے حل کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کا قومی سطح پر اتفاق رائے کا ہونا لازمی ہے۔
یہ بات انہوں نے وزیراعلی ہاس میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ کے 60 رکنی وفد سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ پروگرام میں صوبائی وزرا امتیاز شیخ، ناصر شاہ، چیف سیکرٹری ممتاز شاہ، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ قاضی شاہد پرویز، چیئرمین پی اینڈ ڈی حسن نقوی، صوبائی سیکرٹریز اور ایڈیشنل آئی جی کراچی نے شرکت کی۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ قومی سلامتی کو بیرونی جارحیت اور اندرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے پاک فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مضبوط ہونا لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی نے وقت کے ساتھ ترقی کی ہے جس میں فوڈ سیکیورٹی، حفظان صحت، توانائی سیکیورٹی اور ماحولیاتی سیکیورٹی اور دیگر شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیر اعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی ملک کے خوشحال مستقبل کیلئیروزگار، تعلیم، توانائی، ماحولیات اور مساوات پر مبنی 5 ایز کا نام دیا تھا۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ11/9 کے بعد پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ دہشتگردی اور انتہا پسندی سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح سندھ بھی آئی ایس چیلنجز جیسے سیکیورٹی چیلنجز سے محفوظ نہیں ہے جس میں مذہبی/فرقہ وارانہ ذیلی تنظیموں میں انتہا پسندی، دہشت گردی، منشیات کی تجارت، ہتھیاروں کا پھیلا اور غیر قانونی تارکین وطن شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں بھی فرقہ وارانہ تنازعات دیکھنے میں آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں کچھ انتہا پسند جماعتیں اور دیگر فرقہ وارانہ تنظیمیں 11/9 کے بعد کے بیانیے کی پیداوار کے طور پر ابھری ہیں جن میں القاعدہ اور اس کے اتحادی گروپوں کے انتہا پسندانہ نظریات کا مقابلہ کرنے کیلئے صوفی ازم کو فروغ دیا گیا اور اب فرقہ وارانہ تنازعات کا دائرہ کار تصادم کی حد تک بڑھ گیا ہے۔ ایک کالعدم اور اب فعال جماعت نے حالیہ دنوں میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تھا۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ تشدد، عدم برداشت، اقلیتوں کو تحفظ اور انصاف کی فراہمی اورمعاشرے کے امن و امان کیلئے مستقل خطرہ ہیں۔ ایک جماعت کی خوشنودی کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ دوسری فرقہ وارانہ تنظیمیں بھی اسی کا مطالبہ کر سکتی ہیں اس لئے ملکی مسئلے سے نمٹنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے قومی سطح پر اتفاق رائے کا ہونا لازمی ہے۔
سندھ پولیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ نے کہا کہ رواں مالی سال کیلئے صوبائی پولیس کا مجموعی بجٹ 106 ارب روپے ہے اور پولیس کی کارکردگی میں کافی بہتری آئی ہے۔انھوں نے کہا کہ اصلاحی اقدامات اور آئے دن ٹارگٹڈ سرچ آپریشنز کی وجہ سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ 2014 میں کراچی ورلڈ کرائم انڈیکس میں چھٹے نمبر پر تھا اور اب 2021 میں بہتری کے ساتھ 122 پر آ گیا ہے۔ اس وقت وینزویلا کا کراکس سرفہرست ہے، کوالالمپور 42، شکاگو 44، برمنگھم 74، دہلی 77 ویں، واشنگٹن 83، تہران 112 اور کراچی 122 نمبر پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہماری کامیابی کی کہانی ہے ۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ انہوں نے بڑی تعداد میں ترقیاتی کام کروائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شاہراہ فیصل، طارق روڈ، یونیورسٹی روڈ اور مختلف انڈر پاسز اور فلائی اوورز کی تعمیر کے بعد ہم نے منہوڑہ کیلئے ایک سڑک بنائی ہے جس سے سیاحت اور شہر کی تصویر کشی ہوگی۔
وزیراعلی سندھ نے کہا کہ انکی حکومت کچے کے علاقوں میں سڑکوں کی ترقی، اقلیتوں کی عبادت گاہوں کیلئے اسپیشل پروٹیکشن یونٹ کے قیام، کراچی سیف سٹی پراجیکٹ، فرانزک سائنس لیبارٹری پروجیکٹ، منشیات کے عادی افراد کیلئے بحالی مراکز، پولیس افسران کیلئے ہاسنگ اسکیموں ، موٹر سائیکلوں میں ٹریکر ڈیوائس کی تنصیب اور سندھ پولیس کو منی اسکینرز کی فراہمی پر کام کر رہی ہے۔
وزیراعلی سندھ نے شرکا کیمختلف سیاسی اور غیر سیاسی سوالات کا خیر مقدم کیا اور انکے جوابات دیئے۔ وزیراعلی سندھ نے این ڈی یو کے سربراہ میجر جنرل احسان محمود کو شیلڈ پیش کی اور این ڈی یو کے سربراہ نے بھی وزیراعلی سندھ کو اپنے اداریکی یادگار بھی پیش کی۔