لاہور (صباح نیوز)نائب امیر جماعت اسلامی، سابق پارلیمانی لیڈر لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے عدم اعتماد تحریک کا بردباری، جمہوری رویہ کی بجائے جذباتی، انتقامی اور اشتعال انگیزی سے سامنا کیا ہے۔ اِسی طرح سے ملک گھمبیر سیاسی اور انتظامی، اقتصادی بحرانوں سے دوچار ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے عمران خان نے بھان متی کا کنبہ چھوڑا، اپنے مفادات کے لئے ممبران کو اکٹھا کیا۔ اب حکومتی ناکامی، نااہلی اور تکبر و غرور کی وجہ سے ممبران نئی صورتِ حال میں نئی اڑان بھررہے ہیں۔ نااہلی، ناکامی اور رسوائی و تباہی کی تمام تر ذمہ داری عمران خان اور ان کے نورتنوں پر عائد ہوتی ہے۔
لاہور میں سیاسی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ جماعت اسلامی کا واضح موقف ہے کہ موجودہ نظام ناکام ہوگیا، 2018 انتخابات کا بندوبست اور زبردستی کی حکومت نااہل ثابت ہوگئی۔ عدم اعتماد تحریک کی کامیابی کے بعد بھان متی کا نیا کنبہ بھی حالات کو سدھار نہیں سکے گا۔ اس لیے جس طرح عدم اعتماد آئینی طریقہ ہے ویسے ہی بحرانوں کے خاتمہ لیے بھی آئینی، جمہوری اور پارلیانی طریقہ کار قبل از وقت انتخابات ہیں۔
لیاقت بلوچ نے سوالات کے جواب میں کہا کہ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے اسلام آباد میں ملاقات کے موقع پر بھی قومی حکومت اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے پی ٹی آئی کے علاوہ تمام جماعتوں کی مشترکہ حکومت کا موقف پیش کیا تھا۔ عدم اعتماد تحریک کے بعد کی صورتِ حال میں تو نیا انتخاب ہی راستہ ہے۔ نئے انتخابات، نئے مینڈیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں نمائندہ جماعتیں ایسے فارمولہ پر عمل کرسکتی ہیں۔ فی الحال تو یہ نیک خواہشات ہی ہیں۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ ملک میں بڑھتا بحران قومی معیشت، داخلہ اور خارجہ محاذ پر سنسنی اثرات پیدا کررہا ہے۔ فساد، عدم برداشت، سیاسی انتہا پسندی، پارلیمانی جمہوری نظام کے لیے جان لیوا بن سکتا ہے۔ جب حکومت چل نہیں رہی، اپوزیشن جماعتوں کو نمبرگیم میں ناپسندیدہ حربے استعمال کرنے پڑرہے ہوں تو جمہوری جماعتیں جمہوری کردار پیش کریں اور نئے مینڈیٹ کے لیے عوام سے رجوع کریں۔ اسلاموفوبیا عالمی دن منانا چھا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ، یورپ اسلام اور مسلمانوں سے جانبداری اور تعصب کا رویہ ترک کردیں۔ عمران خان اسلاموفوبیا پر اچھی تقریروں پر عمل کا ثبوت دیں اور افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرلیں۔
انصاف کی فوری فراہمی کے لیے پولیس نظام میں اصلاحات اور سیاسی مد اخلت کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ لیاقت بلو چ
جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر و سابق ممبر قومی اسمبلی لیاقت بلو چ نے کہا ہے کہ ملک میں انصاف کی فوری فراہمی کے لیے پولیس نظام میں اصلاحات اور سیاسی مد اخلت کا خاتمہ بے حد ضروری ہے ،کونسل فار پولیس ریفارمز کی تیار کر دہ سفارشات پر قانون سازی اور عملدرآمد کر کے پو لیس اور انصاف کے نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے ،جماعت اسلامی ملک کے تمام شعبوں میںاصلاحات کا جا مع ایجنڈا رکھتی ہے،
انھوں نے کہا عدالتوں پر سے مقدمات کا بوجھ ختم کرنے کے لیے پولیس اور عدالتی نظام میں اصلاحات کی بہت ضرورت ہے ،کونسل فار پولیس ریفارمز کی طر ف سے تیار کر دہ سفارشات بڑی اہم اور وقت کی ضرورت ہیں، ہم نہ صرف انکی تائیدکرتے ہیں بلکہ ان کو قانون کا حصہ بنانے کے لیے بھر پور تعاون بھی کرینگے۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے کونسل فار پولیس ریفارمز پاکستان کے زیراہتمام ”نظامِ انصاف کی اصلاح ”کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کر تے ہو ئے کیا ۔
اس موقع پر قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے انصاف و قانون کے چئیر مین ریاض فتیانہ ، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ہائی کورٹ نیاز اللہ نیازی، کونسل فار پولیس ریفارمز کے صدر ساجد اقبال گجر اور پبلک پراسیکیوٹر ڈاکٹر رمضان قصوری نے بھی خطاب کیا ۔ریا ض فتیانہ نے کہا پولیس اور عدلیہ کے نظام میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے،حکومت نے فوجداری نظام میں 700کے قریب ترامیم متعارف کروائی ہیں ،جس سے حکومت کی سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے ، انھوں نے کہا کہ پولیس میں ٹریننگ،تفتیش اور انٹیلی جنس کے شعبہ جات میں خواتین کو ٹاسک دینے کی ضرورت ہے۔
کونسل فار پولیس ریفارمز کے صدر ساجدا قبال گجر اور ڈائریکٹر قانونی اُمور ڈاکٹر رمضان قصوری اصلاحات کے اہم نکات پیش کر تے ہو ئے کہاتفتیش اور امن و امان کے لیے علیحدہ محکمے، قابل دست اندازی پولیس جرائم کی فہرست پر نظر ثانی ،انصاف کی فراہمی کے متبادل ذرائع ، احتساب اور جانچ کا خودکار نظام، پولیس آرڈر 2002کانفاذ،ایکٹ 2017کے رولز مرتب کرنا،پولیس مقابلوں کی خود کار انکوائری ،بڑے شہروں کے لیے آزادمیٹر وپولیٹن پولیس ،پولیس میں فوجی طرز پر براہ راست بھرتی ،پولیس کووسائل کی فراہمی ،گرفتاری کی بجائے ابتدائی تفتیش کے بعد شخصی ضمانت پر تھانہ سے رہائی ،حوالا تیوں کے انسانی حقوق کا احترام، تفتیشی آفیسرز کی آزادنہ تفتیش کے راستے میں حائل رکاٹوں اور پیچیدگیوں کا خاتمہ اور دیگر نکات شامل ہیں ۔
اس موقع پر عدالتوں سے غیر ضروری بوجھ کے خاتمے کے لیے تجویز کیا گیا کہ مقدمہ کو تھانہ، پراسیکیوشن اور کے ذریعے ختم کیا جائے جبکہ عدالتوں میں صرف سنگین جرائم جو ہوں ،بجھوائے جائیں ۔اور غلط مقدمات کی صورت میں مدعی کے علاوہ چالان مظور کرنے والے تفتیشی ،اور پراسیکیو ٹر کو بھی جرمانہ کیا جاے ۔نیز بہت سے مقدمات کو ٹریفک کی طرح جرمانہ کی سزاتک محدود رکھا جائے۔