لاہور(صباح نیوز)جماعت اسلامی پاکستان نے کہا ہے کہموجودہ زرعی پالیسی زراعت اور کسان دشمن پالیسی ہے جس کو فوری طور پر ختم کیا جائے ، کسان نمائندہ تنظیموں (کسان بورڈ پاکستان ) کی مشاورت سے ملک کے اندر ایک ایسی زرعی پالیسی کا نفا ز کیا جائے جو کسان اور زراعت دوست ہو۔مرکزی مجلسِ شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان کی ملکی زرعی صورت حال پر قرارداد میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت (تبدیلی سرکار )بھی سابقہ ادوار حکومت کاتسلسل ہی ہے ۔ہر شعبہ زندگی میں نالائقی اور نااہلی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے ۔باقی شعبہ ہائے زندگی کی طرح زرعی مداخل کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ زراعت جیسا انتہائی اہم شعبہ جو پہلے بھی نظر انداز ہوتا رہا اب بھی حکومتی ترجیحات میں سوائے دعووں کے کہیں نظر نہیں آ رہا۔حالیہ ضمنی بجٹ میں موجودہ حکومت نے زرعی بیجوں ،آلات اور جانوروں کی خوراک پر 17فیصد کا نفاذ کر کے تباہ شدہ زراعت کو مزید تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے۔
ووٹ کے حصول کیلئے کسانوں کے مسائل حل کرنے کے بڑے بلندو بانگ دعوے کئے گئے مگر حکومت کے تین سال گزرنے کے باوجود سوائے لفظی دعووں کے زرعی شعبہ کو کوئی ریلیف نہ دیا گیا ہے ۔ ملکی آبادی کا 44فیصد بالواسطہ تقریباََ14کروڑ آبادی / افراد زرعی شعبہ سے وابستہ ہیں۔ اور ملکی زرِ مبادلہ کا 24فیصد شعبہ زراعت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت زراعت سے وابستہ افراد کوریلیف دینے میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہی ہے۔ جس سے کسان برادری میں شدید اضطراب اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ 2021کا سال زراعت کے لئے کئی حوالوں سے بد ترین سال تھا ۔-19 اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر زراعت اورلائیو سٹاک سیکٹر کو نقصان پہنچا ۔ مگر اس حوالے سے کوئی حکومتی حکمت عملی نظر نہ آئی۔ شوگر مل مافیا نے لوٹ مار کے تسلسل کو برقرار رکھا ہواہے۔ جن مظلوم کسانوں کی ان تھک محنت سے انکی ملوں کا پہیہ رواں دواں ہے انکی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ جب مارکیٹ میں چینی 45تا 50روپے فی کلو تھی گنے کی سرکاری قیمت خرید 180روپے فی من مقرر کی گئی تھی اس وقت بھی کاشتکار 350روپے فی من کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اب جبکہ مارکیٹ میں چینی کی قیمت 80سے 110روپے فی کلو ہو گئی ہے ۔ حکومت وقت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے گنے کی سرکاری قیمت225روپے فی من مقرر کی ہے۔ ”یہ ہے نیا پاکستان” اور ”کسان دوست حکومت”۔اس وقت مارکیٹ میں زرعی مداخل (کھاد ،بیج،زرعی ادویات اور زرعی آلات ) کی قیمتوں میں 100فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں حکومتی مشینری مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ کسان منافع خوروں اور صنعتکاروں کے رحم و کرم پر ہیں اسی طرح جعلی زرعی ادویات کھاد۔ بیج کی مارکیٹ میں بھرمار ہے ۔اور دیگر فاسفورسی کھادوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ کھاد کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 10,000/روپے فی بیگ تک پہنچ گئی ہے جو غریب کاشتکار کی قوت خرید سے باہر ہے۔ بوریا کھاد ملک میں پیدا ہونے کے باوجود مقامی کاشتکار کو کنٹرول ریٹ پر دستیاب نہ ہے اور سمگل ہو رہی ہے۔ مقامی کاشتکار کھاد کے حصول کیلئے دھکے کھا رہا ہے اور انتظامی ناکامی کی وجہ سے کھاد سرکاری نرخ 1768روپے کی بجائے مارکیٹ میں 2500روپے سے2600روپے تک فروخت ہو رہی ہے۔ بااثر لوگوں کا اس مارکیٹ پر قبضہ ہے ۔غریب کسان کا کوئی پرسان حال نہ ہے ۔ سبزیوں اور باغات کے کاشتکاروں کو بھی انکی اجناس کی مناسب قیمت نہیں مل رہی ۔ جبکہ یہی اجناس کاشتکار کے ہاتھ سے نکل کر جب اس مافیا تک پہنچتی ہیں تو ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔کسان سے سستی گندم اور سستا گنا خریدا گیا اور جب یہی گندم اور گنے سے بننے والی چینی مافیا کے ہاتھ میں آئی تو انکی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ اسطرح مافیا نے بیک وقت کسان اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ حکومت نے سوائے چور چور کا شور مچانے کے کچھ نہ کیا۔
بلکہ المیہ تو یہ تھا کہ اس مافیا کے بڑے بڑے گرو ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے وزارتوں پر قابض ہیں اور حکومت مافیا مافیا کا شور مچا رہی ہے ۔ منڈیوں میں آڑھتی حضرات کا راج ہے۔ انکے طریقہ واردات سے کون واقف نہیں۔ زراعت کیلئے پانی کی ضرورت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ اس کیلئے زرعی ٹیوب ویلز اور نہری پانی انتہائی اہم ہیں۔ زرعی ٹیوب ویلز ٹیرف میں اضافہ اور اور جیسے بے شمار قسم کے ٹیکسز کا نفاز کاشتکاروں کیلئے وبال جان بن چکا ہے۔ نہری پانی کی عدم دستیابی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ بااثر افراد پانی چوری میں ملوث ہیں۔ ٹیل کے زمیندار پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں کوئی شنوائی نہیں۔14کروڑآبادی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومت اور اسکے ادارے ریلیف دینے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ مافیا کے راستے میںکوئی رکاوٹ نہیں کیونکہ آٹا مافیا اور شوگر ملز مافیا سمیت تمام بڑے مافیا حکومتی ایوانوں کا حصہ ہیں۔ موجودہ حکومت کی زرعی پالیسی کسان اور زراعت دشمن پالیسی ہے اس پالیسی کے ذریعے زراعت میں بہتری آنا محال ہے۔ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ جب کسان اپنے جائز حق کیلئے باہر نکلتا ہے تو حکومت ان کے مطالبات سننے کی بجائے ان پر لاٹھیاں برساتی ہے اور ملک کے فوڈ سیکیورٹی ضامن لوگوں کو جیلوں میں ڈال کر ان کی آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالیہ بجٹ میں وفاقی اور صوبائی حکومت پنجاب باوجود بلند بانگ دعووں کے کسانوں کیلئے وہ بجٹ مختص نہ کیا ہے جس کی اس وقت شعبہ زراعت کو ضرورت ہے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک پاکستان کی ترقی زرعی شعبہ کی ترقی سے ہی ممکن ہے ۔
وفاقی حکومت نے زرعی شعبہ کیلئے جو بجٹ مختص کیا ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔زرعی شعبہ جس کا ملکی قومی آمدن میں حصہ 19%سے لیکر 24%ہے اس کیلئے یہ بجٹ محض ایک مذا ق ہے ۔ اس طرح صوبائی حکومتوں کا طرز عمل بھی زراعت کے حوالے سے کوئی قابل تحسین نہیں ہے۔ صوبائی حکومت پنجاب نے جو بجٹ شعبہ زراعت کیلئے مختص کیا ہے وہ ناکافی ہے جبکہ ساتھ ہی کی شکل میں اربوں روپے کے مزید ٹیکس زرعی شعبہ پر عائد کردئیے ہیں۔ جس نے ریلیف کی بجائے کسان کو تکلیف میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس انتہائی معتبر اور مضبوط فورم کی وساطت سے حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مسائل کے فوری حل کے لئے :1۔ اس وقت کل قابل کاشت رقبہ کا صرف 39فیصد رقبہ زیر کاشت ہے جبکہ 61فیصد رقبہ بنجر اور ویران پڑاہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس رقبہ کو حکومت ترقی پسند کاشتکاروں اور زرعی گریجوایٹس کو الاٹ کرے تا کہ وہاں پر کاشتکاری ہو سکے ۔ 2۔ موجودہ زرعی پالیسی زراعت اور کسان دشمن پالیسی ہے جس کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور کسان نمائندہ تنظیموں (کسان بورڈ پاکستان ) کی مشاورت سے ملک کے اندر ایک ایسی زرعی پالیسی کا نفا ز کیا جائے جو کسان اور زراعت دوست ہو۔ 3۔ تمام فصلات کی قابل قبول قیمتوں کا تعین وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
کاشتکاروں اور صارف کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے قیمتیں مقرر کی جائیں ۔ایک بااختیار کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں کاشتکاروں کی حقیقی نمائندہ تنظیموں (کسان بورڈ )اور صارفین کمیٹیوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے اور لاگت / اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے قیمتوں کا تعین کیا جائے تب ہی مسائل حل ہوں گے۔4۔ چینی کی موجودہ قیمت اور کسان کی قیمت لاگت کو مد نظر رکھتے ہوئے گنے کی قیمت خرید پر نظر ثانی کی جائے۔ کم از کم 350/روپے فی من گنے کی قیمت خرید مقرر کی جائے۔ کسانوں کو گنے کی رقوم کی ادائیگی بر وقت یقینی بنائی جائے ۔سابقہ رقوم کی ادائیگی فوری کروائی جائے۔5۔ گندم ہمارے ملک کی اہم ترین فصل ہے ملک کی غذائی ضرورت سے وافر گندم ملک میں پیدا کی جاتی ہے مگر حکومتی نااہلی کی وجہ سے آج پاکستان روس اور یوکرین جیسے ممالک سے مہنگی گندم درآمد کر کے ایک طرف تو کثیر زرمبادلہ ضائع کر رہا ہے اور دوسری طرف اپنے کسان کو ریٹ نہ دے کر اس کے استحصال کر رہا ہے۔ مطالبہ ہے کہ کسان کی حقیقی قیمت لاگت کو سامنے رکھتے ہوئے گندم کی کم از کم قیمت خرید 2500روپے فی من مقررکی جائے۔ 6۔ کھاد(یوریا، ڈی اے پی ،پوٹاش) جو کہ زراعت کی بنیادی ضرورت ہے پر عائد ٹیکس ختم کیا جائے۔ کی مد میں کسانوں سے وصول کردہ 750ارب روپے کسانوں کو واپس دئیے جائیں یا اسکے مساوی کھادوں پر براہ راست سبسڈی دلوائی جائے۔7۔ زرعی ٹیوب ویلزپر بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے اور عائد کردہ اور جیسے ناجائز ٹیکسز کو فوری ختم کیا جائے۔
زرعی مقاصد کیلئے بجلی کا ریٹ 04 روپے فی یونٹ مقرر کیا جائے اور زرعی مقاصد کیلئے استعمال ہونے والی بجلی کا ون یونٹ ون ریٹ مقرر کیا جائے۔ 8۔ بلا سود زرعی قرضہ جات کا اجراء کرتے ہوئے اس کی حد میں100فیصد اضافہ کیا جائے۔ حصول قرضہ کو آسان بنایا جائے اور رقبہ کی حد ختم کی جائے۔ 9۔ تمام فصلات کی انسورنش انتہائی اہم ہے اس عمل کو پورے ملک اور تمام فصلات کیلئے پھیلادیا جائے۔ 10۔ منڈیوں میں آڑھتیوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے۔ مارکیٹ کمیٹیوں میں قوانین کے تحت کسان نمائندہ تنظیم(کسان بورڈپاکستان) کو نمائندگی دی جائے تا کہ منڈیوں میں ہونے والے ظلم کا تدارک کیا جا سکے۔ 11۔ نہری پانی چوری ایک معمول بن چکا ہے۔ پانی چوری میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کاروائی فوری عمل میں لائی جائے۔اور اس کام میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف موثر کاروائی کو یقینی بنایا جائے۔ ٹیل کے کاشتکاروں تک پانی کی رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ 12۔ صوبائی اور وفاقی سطح پر قائم تمام ایگریکلچر ایڈوائزری کمیٹیوں میں کسان نمائندہ تنظیم(کسان بورڈ) کو نمائندگی دی جائے۔13۔ تمام زرعی مشینری کی خریداری پر 50فیصد سبسڈی دی جائے۔ نیز جعلی زرعی ادویات ،کھاد اور بیج کے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے اور سیڈ ایکٹ کا فوری طو ر پرنفاذ کیا جائے۔14۔ زرعی مداخل کھاد ،بیج اور زرعی ادویات کو اشیائے ضروریہ کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے انکی قیمتوں کے تعین کا طریقہ کار وضح کیا جائے تا کہ مافیاز من مانی قیمت وصول نہ کر سکیں۔ اس حوالے سے قوانین میں ترمیم کی جائے اور کی بنیاد پر سزائو ں میں اضافہ کیا جائے۔ 15۔ زرعی بیجوں، آلات اور جانوروں کی خوراک پر عائد 17فیصد کو فی الفور ختم کیا جائے۔ 16۔ سبزیاں اور پھل ہماری بنیادی غذائی ضروریات کا حصہ ہیں انکی کم از کم قیمت خرید مقرر کی جائے اور کسانوں کو آڑھتی مافیا اورذخیرہ اندوزوں کی لوٹ مار سے بچانے کیلئے حکومت کولڈ سٹوریج قائم کرے ۔ 17۔ لینڈ ریکارڈ سینٹر پر ہونے والی کرپشن کے خاتمہ کیلئے کسانوں کے نمائندگان کو شامل کرتے ہوئے ضلعی سطح پر کمیٹیاں قائم کی جائیںاور کسان کو انکی فرد ملکیت بلا قیمت فراہم کی جائے۔ 18۔ کسان کارڈ کی تشہیر پر قومی خزانے کا کثیر سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے ۔
اور اسے حکومت کا ایک بہت بڑا کریڈٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ عملاََ کسان کارڈ کاشتکار طبقے کومحض لولی پاپ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ بجٹ میں مختص کردہ رقم اتنی ناکافی ہے کہ کسان کارڈ کے ذریعے کاشتکار کو کوئی ریلیف ملتا نظر نہیں آ رہا ۔ حکومت باقی ممالک کی طرح زرعی شعبہ میں براہ راست سبسڈی کا نظام متعارف کروائے۔ 19۔ 22فروری 2022 کو لاہور میں جے آئی کسان کے تحت ہونے والے احتجاج پر پنجاب پولیس کی جانب سے جو بہمانہ تشدد کیا گیا اور پر امن مظاہرین کو گرفتار کیا گیا اس کے ذمہ داران پولیس ملازمین کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے اور دوران حراست کسان بورڈ شمالی پنجاب کے جنرل سیکرٹری صالح محمد رانجھا و دیگر کسانوں پر پولیس تشدد میں ملوث اہلکاروں کو فوری طور پر نوکری سے برخاست کیا جائے۔ 14کروڑ کاشتکار مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ہوا میں معلق تمام دعووں کو مسترد کرتے ہیں ۔اگر ریاست مدینہ بنانا مقصد ہے تو عملی کام کرنا ہو گا۔ زراعت سے وابستہ افراد جو کہ کل آبادی کا بالواسطہ44فیصداور بلا واسطہ 70فیصد ہیں کو مزید غربت کی طرف نہ دھکیلیں۔ کسان جو ملک کی فوڈ سیکیورٹی کے ضامن ہیں اور دن رات محنت کر کے ملک کی 25کروڑ آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں انکے حالات زندگی کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ تبدیلی سرکار کی اب تک کی کارکردگی پر کاشتکار برادری کو شدید تحفظات ہیں اور ان میں تشویش پائی جاتی ہے۔ مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔