لاہور(صباح نیوز)جماعت اسلامی پاکستان نے بھارت، سوئٹزرلینڈ ،سری لنکا میں حجاب پر پابندی ،بھارت میں حجاب پہنے والی مسلم طالبات کو تعلیمی اداروں میں ہراساں کرنے کی مہم اور تعلیمی اداروں میں داخلے سے محروم کرنے کے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ خواتین اور بچوں کے خلاف قتل اور زیادتی کے مجرمان کو فوری فیصلوں کے ذریعے عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 35کے تقاضے کے مطابق خاندان، ماں اور بچے کی حفاظت کے حوالہ سے مملکت اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ پرائمری سے کالج کی سطح تک طالبات کے علیحدہ تعلیمی ادارے بحال کیے جائیں۔ طالبات کی اخلاقی تربیت اور تعمیر سیرت و کردار کے حوالے سے شرعی احکام کو شامل نصاب کیاجائے۔ اقوام متحدہ کشمیر اور فلسطین سمیت ہم دنیا کی ہر مظلوم عورت کو اس کے جائز بنیادی حق کے لیے اپنی قرار داد وں اور قوانین کے مطابق دنیا کی مظلوم خواتین کے تحفظ اور ان کے جائز حقوق دلوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
یہ مطالبات مرکزی مجلسِ شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان میں منظور کی گئی امور خواتین بارے قرارداد میں کئے گئے ،قراراداد میں کہا گیا ہے کہپاکستان میں خواتین کی ترقی اور فلاح و بہبود کے حوالے سے مختلف بیانیے اختیار کیے جاتے ہیں۔ یہ حقیقت تسلیم کی جانی چاہیے کہ خواتین کے حوالے سے جہاں ایک جانب آگاہی اور مواقع میں اضافہ ہواہے وہاں دوسری جانب انہیں تحفظ و بقا او رترقی کے حوالے سے ماضی سے زیادہ سنگین مسائل کا سامنا ہے اور معاشرتی ناانصافیوں اور جرائم میں شدت دیکھی جارہی ہے۔اس صورت حال کو دور ہونا چاہیے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے ، تاہم اصلاح احوال کی حکمت عملی کیاہو ، اس میں اختلاف موجود ہے۔ اس کی وجہ امداد فراہم کرنے والی ایجنسیوں اور اداروں کے اپنے مطلوبہ ایجنڈے کی تکمیل ہے اور حالات وواقعات کاتنوع بھی ، تاہم معاشرے کو مہذب خدوخال اور ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے استحصال کاخاتمہ اور درست خطوط پر نشوونما کے مواقع میں اضافہ ہو۔
اس حوالے سے جماعت اسلامی کا ہمیشہ سے موقف واضح رہاہے۔ عصر حاضر کے مسلمانوں کامسئلہ یہ ہے کہ اسلام کے آفاقی اصول و ضوابط اور نظام حیات سے ان کااعتماد متزلزل ہوگیاہے۔ چنانچہ وہ ایک بار پھر اپنے معاشی سیاسی، سماجی اور تہذیبی معاملات کو اپنی قابلیت علم اور فہم کے بل پر حل کرنے کی جدوجہد میں ہلکان ہو رہے ہیں ۔ دور جدید کا پسندیدہ موضوع صنفی مساوات ہے جس کے مطابق ”عورت اور مرد یکساں ہیں ”کے غیر حقیقی اور غیر فطری تصویر پر پورے نظام حیات کو مرتب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستانی معاشرے کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ دنیاکی نظریں پاکستان پر ہیں کیونکہ رب کائنات نے اسے بے شمار جغرافیائی نعمتوں سے مالا مال کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ واحد اسلامی ریاست ہے جو کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر وجود میں آئی ہے۔ زمین پر ازل سے جاری آدم اور ابلیس کی جنگ میں عورت کامقام ، اس کی ترقی، معاشی غلبہ کے منصوبوں کے ذریعے عوام کو فتح کرنے کی حکمت عملی اختیارکی گئی ہے۔ پاکستان عالمی طاقتوں کی اس حکمت عملی کاآسان ہدف ثابت ہو رہاہے کیونکہ پاکستان آج تک ہندو تہذیب کے زیر اثر ایک روایت پسند اور خاندانی آباواجداد کی روایات کاپابند معاشرہ رہاہے ۔ جہاں اسلام کے عطا کردہ حقوق کاتصور مغلوب ہے۔ لہٰذا کہیں عورت صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم رہی ہے تو کہیں خاندانی جبر کاشکار ہے۔
اس کی عزت و ناموس تارتار ہے ، حصول انصاف محض ایک خواب ہے ، وراثت ملکیت ، جائیداد، مہر ، نان و نفقہ اور کفالت کے حقوق غصب ہو رہے ہیں ۔ ریاست اور خاندان اس کو وہ مقام فراہم کرنے سے قاصر ہیں ، جو اسلام نے اسے عطا کیے ہیں۔جماعت اسلامی پاکستان روایات اور رسومات ، معاشرتی بگاڑ ، خاندانی جبر اور عدم تحفظ کے رجحانات کے سخت مخالف ہے۔ جماعت اسلامی اس بات کی خواہاں ہے کہ اپنے اردگرد کے تصورات اور رسم و رواج کی بنیاد پر اسلامی معاشرے میں عورت کے مقام ومرتبے کو سمجھنے اور بیان کرنے کی بجائے اللہ اور نبی اکرم ۖکے عملاً رائج شدہ طریقہ کار کا علم و شعور معاشرے میں بڑے پیمانے پر پھیلایاجائے۔ معاشرے میں جہاں جہاں ، جس درجے کا ظلم و زیادتی ، بے انصافی اور افراط وتفریط موجود ہے ، اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور ظالم کا ہاتھ پکڑ نے کاحوصلہ پیداکیاجائے۔اسلامی معاشرہ عورت کے حقوق کاپاسبان اور محافظ ہوتاہے اور عدل وانصاف کے لیے اس کی ہر صدا کاجواب دینااپنا فرض سمجھتاہے۔ اسلام مغربی نظریہ مساوات مرد و زن کو تسلیم نہیں کرتابلکہ اس کو ظلم سے تعبیر کرتاہے۔ بحیثیت عورت خاندان کی نگہداشت کی بڑی ذمہ داری کے بوجھ کے ساتھ مرد کی ذمہ داریوں میں برابر کا بوجھ اٹھانا انصاف کے خلاف ہے۔ اسلام عورت کو اس کی ضروریات کے مطابق ایک خود مختار،محفوظ اور باسہولت حالات کار فراہم کرنا معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری قرار دیتاہے۔اقوام متحدہ کے ادارے جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر53/144جوکہ 9دسمبر1998ء کو منظور کی گئی ،
اس کی دفعہ نمبر1کے تحت تمام بنیادی انسانی حقوق کاحصول ہر شہری کابنیادی حق ہے۔ لہٰذا بھارت، سوئٹزرلینڈ ،سری لنکا میں حجاب پر پابندی ،بھارت میں حجاب پہنے والی مسلم طالبات کو تعلیمی اداروں میں ہراساں کرنے کی مہم اور تعلیمی اداروں میں داخلے سے محروم کرنے کے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے اجلاس کے شرکاء مطالبہ کرتے ہیں کہ :l عورت کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ سے منظور کیے گئے ”تحفظ نسواں ایکٹ ” کے تحت خواتین کے خلاف ہونے والے گھریلو تشدد ، جنسی زیادتی ،اخلاقی تحقیر جیسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنایاجائے۔l خواتین اور بچوں کے خلاف قتل اور زیادتی کے مجرمان کو فوری فیصلوں کے ذریعے عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔l آئین پاکستان کے آرٹیکل 35کے تقاضے کے مطابق خاندان، ماں اور بچے کی حفاظت کے حوالہ سے مملکت اپنی ذمہ داری پوری کرے۔l عورت کو اسلام کے عطا کردہ حقوق حق وراثت ، حق شہادت ، حق ولایت ، حق وصیت اور حق نکاح و خلع جیسے قانونی و معاشرتی حقوق کی عملی طور پر فراہمی کو ممکن بنایاجائے۔lعورت کو جائے ملازمت پر کسی بھی طرح سے ہراساں کیے جانے سے تحفظ ،آزادی اور پرسکون ماحول فراہم کیاجائے۔l آئین کے آرٹیکل (g)37کے مطابق حکومت عصمت فروشی ، قمار بازی ، ضرر رساں ادویات کے استعمال ، فحش لٹریچر اور اشتہارات کی طباعت ،نشرواشاعت اور نمائش کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرے ۔ ملک میں حیا کلچر عام کیاجائے۔l ذرائع ابلاغ میں عورت کے وقار،مقام ومرتبے اور رشتوں کے تقدس کی اہمیت کو ترجیحاً اجاگر کرتے ہوئے اخلاقی حدود کی پاسداری کی جائے۔ l پرائمری سے کالج کی سطح تک طالبات کے علیحدہ تعلیمی ادارے بحال کیے جائیں۔lطالبات کی اخلاقی تربیت اور تعمیر سیرت و کردار کے حوالے سے شرعی احکام کو شامل نصاب کیاجائے۔l خواتین کی ذہنی اور جسمانی صحت نسلوں کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے ۔ دیہی اور شہری علاقوں کی خواتین کو علاج معالجہ کی بہتر سہولیات فراہم کی جائیں ۔ lکشمیر اور فلسطین سمیت ہم دنیا کی ہر مظلوم عورت کو اس کے جائز بنیادی حق کے لیے اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی قرار داد وں اور قوانین کے مطابق دنیا کی مظلوم خواتین کے تحفظ اور ان کے جائز حقوق دلوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔