قرارداد برائے تعلیمی صورت حال،مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان


لاہور (صباح نیوز) نظامِ تعلیم کسی ملک کے مقصد حیات کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتا ہے اوراُس ملک کی ترقی کا دارومداربھی اُسی نظامِ تعلیم پر ہے۔ بدقسمتی سے ہماری حکومتوں نے شعبہ تعلیم کو ہمیشہ سے ہی نظرانداز کیے رکھا۔اس حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس ملک میں تعلیمی شعبے کی زبوں حالی اورحکومتی غلط پالیسیوں ، بیرونی این جی اوز کی مداخلت ،نصاب سے اسلامی تعلیمات نکالنے ، نااہل افراد کی تقرریوں اور دینی مدارس پر بے جا پابندیوں سمیت دیگر اُمور پر افسوس کااظہار کرتاہے اور یہ اجلاس سمجھتا ہے کہ نظامِ تعلیم کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قومی اُمنگوں اور نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ کیا جائے اور تعلیمی مقاصد متعین کر کے ایک جامع منصوبہ تشکیل دیا جائے ۔ اجلاس درج ذیل اُمور کی طرف حکومت کو متوجہ کرتا ہے

:١)        ملک میں اس وقت طبقاتی نظام تعلیم رائج ہے،جس نے قوم کو ذہنی،سماجی اور معاشی طور پر تقسیم کر دیا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ’ یکساں نظام تعلیم’ کے لیے ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں اسلامی تعلیمات کے مطابق ‘یکساں نظامِ تعلیم’ رائج کیا جائے تاکہ ملک کے تمام طبقوں کو مساوی مواقع میسرآئیں۔پاکستان میں نظامِ تعلیم کی اسلامی تشکیل کے لیے آئین کے آرٹیکل نمبر31 کے مطابق اقدامات کیے جائیں اور ایجوکیشن ایکٹ 1976ء کو تعلیمی پالیسی کا حصہ بنایا جائے، جس کی رو سے نصابات و درسی کتب میں اسلام کے خلاف کوئی مواد شامل نہیں کیا جا سکتا

۔٣)یکساں قومی نصاب کے نام پرنصابِ تعلیم سے قرآن کی آیتیں،احادیث مبارکہ ،صحابہ کے واقعات ،مسلمان مشاہیر کے تذکرے اور مسلمانوں کی علمی وسیاسی عظمت پر مبنی لوازمے کوانتہاپسندی کی وجہ قراردے کرحذف کرنے کے سلسلے کو بند کیا جائے

۔٤)نصاب تعلیم کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا جائے،جو بچوں کی تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے ساتھ قومی اہداف کے حصول کو یقینی بنائے

۔٥)تعلیمی اداروں میں قرآن مجید کی تعلیم کا منصوبہ خوش آیند ہے،لیکن ”تدریس قرآنِ مجید بطور لازمی مضمون” کے نصاب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں طلبہ و طالبات کی ذہنی سطح کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ تدریس قرآن کے نصاب کو ماہرین کی مدد سے طلبہ و طالبات کی ذہن سطح کے مطابق ترتیب دیا جائے

۔٦)سرکاری تعلیمی اداروں میں عدم توجہی، کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے معیارِ تعلیم خطرناک حد تک گرگیاہے۔ اس کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں کو کرپشن سے پاک کیا جائے اور اہل افراد کی تقرریوں کو یقینی بنایا جائے

۔٧)گذشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی تعلیم کے لیے مناسب بجٹ نہیں رکھاہے۔ بد قسمتی سے اس بجٹ میں اضافے کے بجائے کمی ہی کی گئی ہے، جس کا اثر پرائمری تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم کے مراحل تک پڑاہے

۔٨)سرکاری تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ملک میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کوفروغ ملا ہے۔بلاشبہ سرکاری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی کارکردگی حوصلہ افزا ہے۔اس لیے حکومت اِن  تعلیمی اداروں کو یوٹیلٹی بلز میں رعایت دی جائے اور بے جا ٹیکس کا خاتمہ کیاجائے

۔  ٩)کرونا وبا کے دوران حکومت کی ناقص حکمت عملیوں کی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں کو ناقابل تلافی نقصان اُٹھانا پڑاہے۔ کروڑوں طلبہ وطالبات کی پڑھائی متاثر ہوئی،ہزاروں نجی ادارے بند ہوئے اور لاکھوں اساتذہ بے روز گار ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت  فی الفور نجی تعلیمی اداروں کے لیے خصوصی گرانٹ جاری کرے

۔١٠)مخلوط نظامِ تعلیم کاخاتمہ کیا جائے اور اس مقصد کے لیے کم از کم مدت کا تعین کیا جائے،جس کے اندر طالبات کے لیے الگ اسکولز ،کالجز یونی ورسٹیاںقائم ہوں۔طالبات کے لیے یہ لازم قرار دیا جائے کہ اُن کے لباس شرعی تقاضوں کے مطابق ہوں

۔١١)      شعبہ تعلیم میں استعماری قوتوں اور این جی اوز کی مداخلت کو روکا جائے۔جنسی تعلیم کے نام پر تعلیمی اداروں میںمیوزیکل شو اور بے حیائی کے کلچر کو روکا جائے۔١٢)           نظام تعلیم میں تمام مراحل پر قومی زبان اُردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ آئین پاکستان کی دفعہ 251اور سپریم کورٹ کے فیصلے(8ستمبر2015ء ) کی روشنی میں قومی زبان اُردو کو نافذ کیا جائے اورمقابلے کے امتحانات اْردو میں لیے جائیں۔ عدلیہ سمیت قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کارروائی اُردو زبان میں مرتب کی جائے

۔ ١٣)  اس وقت5سے 16سال عمر کے ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔آئین کے آرٹیکل 25-A کے تحت 5 تا 16 سال کی عمر کے طلبہ و طالبات کی لازمی مفت تعلیم کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں۔نیز جی ڈی پی کا 5فی صد تعلیم کے لیے مختص کیاجائے

۔١٤)اساتذہ کی دینی و پیشہ ورانہ تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔نیز ان کو اعلیٰ تعلیم اور تخصص کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں

۔١٥) تعلیمی اداروں میںاساتذہ کا انتخاب کرتے وقت ان کی نظریہ پاکستان اور اسلام سے ذہنی اور عملی وابستگی کا اطمنان کر لیا جائے

۔١٦)              اساتذہ کی ترقی ، مراعات و دیگر سہولیات کے سلسلے میں ایک جامع نظام وضع کیا جائے ،جس میں اساتذہ کی ضروریات پوری ہوں اور وہ یکسوئی کے ساتھ تعلیم و تربیت کا کام بہتر انداز میں کر سکیں

۔١٧)تعلیمی اداروں میں انتظام و انصرام میں بہتری کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں پانی، بجلی، واش روم، چاردیواری، کھیل کے میدان اور تحفظ جیسی بنیادی سہولیات کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ تدریسی سہولتوں مثلاً سمعی و بصری معاونات،لائبریریوں کا اہتمام،جدید طرز کی لیبارٹریاں،ریسرچ کی سہولت اور غیر نصابی سرگرمیوں کا بھی بندوبست کیا جائے ۔ ان تمام کاموں کے لیے مناسب بجٹ فراہم کیا جائے۔اس طرح تعلیمی اداروں میں سوفی صد داخلے کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے

۔١٨)وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی دعوت پر دینی مدارس کے لیے پاکستان کی قیادت نے متعددبار وفاقی وزیر تعلیم سمیت دیگر اہم وزراء کی موجودگی میں وزیراعظم سے ملاقاتیں کی ہیں ،لیکن ان اجلاسوں میں متفقہ اُمور پر آج تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ فی الفوراُن متفقہ اُمور پر عمل درآمد کے لیے احکامات جاری کیے جائیں۔١٩)دینی مدارس ملک میں دینی تعلیم کی اشاعت کے ساتھ شرح خواندگی بڑھانے میں مؤثر کردار ادا کررہے ہیں ۔ اس لیے دینی مدارس کے لیے سہولیات پیدا کی جائیں ، مشکلات نہ کھڑی کی جائیں اورمدارس کے یوٹیلٹی بلز معاف کیے جائیں اور ان اداروں کے لیے بھی بجٹ میں باقاعدہ حصہ مختص کیاجائے

۔٢٠)        ملک کے ہر شہری کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں۔یونی ورسٹیوں میں تحقیق اور تخصص کے لیے عالمی معیار کی سہولیات فراہم کی جائیں۔