سی پی این ای کے زیر اہتمام میڈیا فریڈم راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں پیکا آرڈیننس سمیت تمام کالے قوانین مسترد


کراچی (صباح نیوز) کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے زیر اہتمام پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور درپیش چیلنجز (ادراک و تدارک) کے موضوع پر منعقدہ ”میڈیا فریڈم راؤنڈ ٹیبل کانفرنس”کے تمام شرکا نے پیکا آرڈیننس سمیت تمام کالے قوانین کو ہر سطح پر مشترکہ طور پر مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب حکومت آزادی صحافت، آزادی اظہار رائے، معلومات تک رسائی کے حقوق کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔

شرکا نے کہاکہ میڈیا تنظیموں نے متحد ہوکر تمام سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔ آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کے ہر ہتھکنڈے کو ناکام بنانے کیلئے صحافی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں، سول سوسائٹی اور وکلا برادری انتہا ئی قدم اٹھانے اور ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ سی پی این ای کی جانب سے میڈیا فریڈم رپورٹ 2021ء کی رونمائی کی تقریب میں صحافی تنظیموں، وکلائ، انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت سول سوسائٹی کے نمائندوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور سی پی این ای کو میڈیا فریڈم رپورٹ کے اجراء پر مبارک باد پیش کی۔ معروف دانشور نورالہدیٰ شاہ نے کہا کہ منصوبہ بندی کے ذریعے میڈیا کی زبان بندی اور مرضی کا ایجنڈا مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا نے بہت سے بے زبانوں کو زبان دی ہے۔ اس لئے سوشل میڈیا پر زیادہ پابندیاں عائد کرنے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ایمینڈ کے صدر اظہر عباس نے کہا کہ میڈیا تنظیموں کا اتحاد اور سی پی این ای، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے بروقت اقدامات کے باعث حکومت پی ایم ڈی اے اور پیکا قانون سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ انہوں نے میڈیا اداروں پر بھی زور دیا کہ خبر کی درستگی کا خیال رکھا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اصولی طور پر کوئی خبر فیک نیوز نہیں ہوتی۔ اصل معنوں میں   اور  کی تفریق سمجھنی ہوگی ۔ حکومت کو چاہئے کہ ے قانون کو مضبوط کرے۔ ممتاز صحافی و سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات سے قبل میڈیا مخالف اقدامات حکومتی عزائم کی ترجمانی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی فیک نیوز کی روک تھام کے لیے میڈیا اسٹیک ہولڈرز اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کے تعاون سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور میڈیا اداروں کو نئے آنے والے صحافیوں کی تربیت کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی نے کہا کہ میڈیا تنظیموں نے متحد ہوکر تمام سازشوں کو ناکام بنایا، اگر اسی طرح متحد رہے تو کوئی طاقت اظہار رائے کی آزادی کو بند کرنے کی جرأت نہیں کرے گی۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیرمین قاضی خضر نے کہا کہ ایچ آر سی پی آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتی ہے، جس طرح میڈیا ہر مشکل وقت میں ایچ آر سی پی کی آواز بنا ہے، اسی طرح ایچ آر سی پی حکومت کے خلاف میڈیا کی آزادی کے لئے بھی شانہ بہ شانہ کھڑی ہے اور پیکا جیسے غیر آئینی اور بنیادی انسانی کے حقوق کے منافی قوانین کو مسترد کرتی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہاب سرکی نے پیکا قانون میں کی جانی والی ترامیم کو آرٹیکل 19 اور 19 اے کی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ذاتی مفادات کی تکمیل کی خاطر قانون سازی یا ترمیم کرنا عدل و انصاف کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔قانون سازی کرتے وقت اس بات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ معلومات تک رسائی، آزادی اظہار رائے اور بنیادی انسانی حقوق کی حق تلفی نہ ہو۔ سی پی این ای کے سیکریٹری جنرل عامر محمود نے سی پی این ای کی میڈیا کانفرنس کی مشترکہ قرارداد میں کہا کہ پیکا آرڈیننس کو مسترد کرتے ہیں اور حق آزادی کے لئے آخری حد تک مقابلہ کریں گے اور میڈیا کی آزادی اور عوام کے جاننے کے حق کو سلب کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنائیں گے۔ معروف اینکر طارق محمود نے کہا کہ حکومت کبھی میڈیا ملازمین و مالکان کے درمیان انتشار کروا کر تو کبھی مختلف میڈیا تنظیموں کے تحت میڈیا ریگولیشن کے ذریعے ممنوع ہتھکنڈوں کا استعمال کرکے میڈیا کو دبانے کے لیے کوشاں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم میڈیا ریگولیشن کے حق میں ہیں، ہم میڈیا پر حقائق پر مبنی غیر جانبداری کے ساتھ خبریں پیش کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم ہرگز وہ نہیں کہیں گے، لکھیں گے یا دکھائیں گے جو حکومت ذاتی مفادات کی تکمیل کی خاطر صحافیوں اور میڈیا اداروں سے چاہتی ہے۔ ہم پر بائیس کڑور عوام کی ذمہ داری ہے ان کی آواز ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں تک پہنچانا ہے۔ ہم ہر پلیٹ فارم پر پیکا سمیت تمام کالے قوانین کے خلاف جدوجہد کرتے رہیں گے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کے صدر احمد شاہ نے کہا کہ حکومت حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے غیر منطقی اقدامات کرتی ہے تاکہ عوام تک سچ نہ پہنچ سکے۔ اس قانون سازی سے جہاں میڈیا اور صحافی متاثر ہو رہے ہیں وہیں فن و ادب سے تعلق رکھنے والے بھی نشانے پر ہیں۔

پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے چیئرمین اویس اسلم علی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے قائم کردہ میڈیا سیلز سے نشر ہونے والی سوچی سمجھی اور منظم خبریں ہی ڈس انفارمیشن ہے جو جمہوریت کی بقاء کے لئے نقصان دہ ہیں، جس کے لئے اخلاقی گائیڈ لائنز بنانے اور اس پر عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے، اور ان کا اعلان بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کیا جانا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ معروف اینکرناجیہ اشر نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے ماہرین کے اشتراک سے ڈیجیٹل ونگ بنانے کی ضرورت ہے جو سائبر قوانین کے حوالے سے کام کرے۔ ہمیں میڈیا ڈویلپمنٹ کے اداروں کو سپورٹ کرنا چاہئے تاکہ صحافیوں کی تربیت کی جاسکے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ خواتین صحافیوں کو سوشل میڈیا پر جس طرح ہراساں اور ٹرول کیا جاتا ہے ممکن ہے مستقبل میں خواتین کی نمائندگی مزید کم ہوجائے۔

معروف صحافی و اینکر پرسن فیصل عزیز نے کہا کہ آج سوشل میڈیا پر ہر دوسرا شخص خود کو صحافی کہہ رہا ہے جس کے باعث حقیقی صحافیوں اور ان کی بقاء کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ سوشل میڈیا پر جس طرح چند لمحوں میں خبر پھیل جاتی ہے ایسے میں خبر کی تصدیق کرنا مشکل ہوجاتا ہے ہمیں اس کے لئے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔آیف آئی اے کا سائبر سیل کے تحت بننے والے قانون میں دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت ضروری ہے۔ کانفرنس سے ممتاز صحافی و اینکر پرسن مسعود رضا ، پی ایف یو جے کے صدر جی ایم جمالی اور جنرل سیکریٹری سہل افضل، کراچی پریس کلب کے سیکریٹری رضوان بھٹی، کے یو جے کے صدر اعجاز احمد اور سیکریٹری فہیم صدیقی ، حسن عباس، ڈاکٹر توصیف احمد خان، اسلم خان نے بھی خطاب کرتے ہوئے پیکا سمیت دیگر تمام کالے قوانین کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مسترد کیا۔

دریں اثنا سی پی این ای کی سندھ کمیٹی کے چیئرمین غلام نبی چانڈیو، سابق سیکریٹری جنرل اعجازالحق، فنانس سیکریٹری حامد حسین عابدی، نائب صدر انور ساجدی، سینئر اراکین ڈاکٹر جبار خٹک، مقصود یوسفی، سعید خاور، عبدالخالق علی، عارف بلوچ، طاہر نجمی، عبدالسمیع، ایاز علی میمن ، بلقیس جہاں ، صحبت علی برڑو، مدثر عالم، محمد طاہر، منزہ سہام، مظفر اعجاز، سجاد عباسی، شیر محمد کھاوڑ، محمود عالم خالد اور عبدالخالق زدران سمیت بڑی تعداد میں صحافیوں نے شرکت کی۔