بیجنگ (صباح نیوز)بیجنگ سرمائی اولمپکس اختتام پذیر ہو چکے ہیں۔ برف کے کھیلوں کے اس عظیم ایونٹ نے “انتہائی کامیاب اور بے مثال”ہونے کا اعزاز اپنے نام کرتے ہوئے دنیا کی یادوں پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ بیجنگ سرمائی اولمپکس نے دنیا کو چین کی شاندار اور رنگا رنگ ثقافت سے بھی متعارف کروایا ہے۔
چینی میڈ یا کے مطا بق بیجنگ سرمائی اولمپکس کا افتتاحی دن چینی قمری کیلنڈر میں موسم بہار کے آغاز کا دن تھا۔ افتتاحی تقریب میں، الٹی گنتی کے طور پر 24 شمسی اصطلاحات کے ساتھ، دنیا بھر سے سامعین نے سرمائی اولمپکس کے آغاز کا انتظار کیا اور نئے موسم بہار کی آمد اور بیجنگ سرمائی اولمپکس کا ایک ساتھ استقبال کیا۔اس کے ذریعے لوگوں نے پانچ ہزار سے زائد عرصے تک جاری چینی کاشتکاری کی تہذیب محسوس کیا ہے اور شمسی اصطلاحات کے حوالے سے چینی روایتی شاعری سے بھی لطف اندوز ہوئے ہیں ۔ اگرچہ “چوبیس شمسی اصطلاحات”کو 2016 کے اوائل میں ہی یونیسکو کی غیر مادی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ، لیکن سرمائی اولمپکس کی شاندار افتتاحی تقریب نے اس خوبصورت ثقافتی تصویر میں ایک مرتبہ پھر نئے رنگ بھر دئیے۔ چینی ثقافت کی روایتی دلکشی نے دیکھنے والوں کو حیران کردیا۔ ان مناظر کو دیکھنے والی ہر آنکھ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
افتتاحی تقریب کی طرح بیجنگ سرمائی اولمپکس کی اختتامی تقریب نے بھی لوگوں کی یادوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ ننھنے منے چینی بچے برف کے گالوں کی شکل کی لالٹینیں اٹھائے کھڑے ہیں۔ پنڈال میں برف کے زرے کا نشان اور برڈ نیسٹ کے اوپر اتحاد، خوشی اور سلامتی کی نمائندگی کرنے والی “چینی ناٹ” کا نمونہ نمودار ہوتا ہے۔ یہ تمام عناصر مل کر رومانویت سے بھرپور عظیم چینی ثقافت کی لطافت ، نرمی اور خوبصورت کو مزید چار چاند لگا دیتے ہیں، جو چینی عوام کی مخلصانہ دعاں اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ چین میں ہمیشہ سے ایک کہاوت رہی ہے کہ شجر بید کے ساتھ مہمانوں کو الوادع کہاجاتا ہے ۔ اس کہاوت کی تمثیل بنے فنکار اختتامی تقریب میں شجر بید کی شاخیں تھامے دلکش شاعرانہ انداز سے سرمائی اولمپکس کو الوداع کہنے کے لیے پنڈال کے بیچوں بیچ جمع ہوئے۔ چینی زبان میں بید اور “رکنے”یا “نہ جانے”کے الفاظ ہم آواز ہیں ۔ چین کے قدیم زمانے میں اکثر، دور دراز سفر پر روانہ ہونے والے دوستوں اور مہمانوں کو شجر بید کی شاخ کو توڑ کر بطور تحفہ دی جاتی ہے۔الوادع کہنے کے اس روایتی چینی طریقے کی اپنی ثقافتی اہمیت اور دلکشی ہے، اور یہ محبت کے اظہار کا منفرد طریقہ بھی ہے۔
اختتامی تقریب نے بہت سے دلکش اور یادگار مناظر کے ساتھ ساتھ چینی ثقافت اور فن کو بھی بھرپور انداز میں دنیا کے ساتھ متعار ف کروایا ۔ چینی ثقافت کی خوشبو اس تقریب کے توسط سے دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی۔چینی کھانے کی ثقافت نے دنیا بھر کے کھلاڑیوں اور مہمانوں کو دل کی گہرائیوں سے اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ چینی کھانے کی ثقافت تحسین کی بہترین انداز میں مستحق ہے۔
اولمپک ویلجز میں “مہمان” بننے واے اکثر اتھلیٹس اور آفیشلز اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس، بلاگ پوسٹس اور انٹرویوز وغیر میں کھانے کی تعریف و توصیف کرتے ہوئیدکھائے دیتے ہیں۔ اکثر مہمانوں نے اولمپک ویلج میں کھانے کو اپنی زندگی کا ناقابل فراموش تجربہ قرار دیا ہے۔ نیدرلینڈز کی 23 سالہ اسپیڈ اسکیٹر یوٹا لیرڈن نے سوشل پلیٹ فارمز پر ایک وی لاگ پوسٹ کیا جسے دو لاکھ سے زائد لائکس ملے ۔ویڈیو میں وہ کامیابی کے ساتھ چینی چوپ اسٹکس استعمال کر تے ہوئے خصوصی چینی کھانا ” ما لا تھانگ ” خوش اور پر جوش انداز میں کھا رہی ہیں ۔ چاپ اسٹک چینی دستر خوان پر بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
امریکی سنو بورڈر جولیا مارینو نے این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان کا پسندیدہ کھانا ” جیاو زی ” ہے، انہوں نے بتایا کہ اولمپک ویلج میں قیام کے دوران انہوں نے تقریبا 200 ” جیاو زی ” کھائے تھے۔ اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں، اندازہ ہے کہ چین سے وآپس جانے کے طویل عرصے بعد تک بھی یہاں آنے والوں کا چینی کھانوں سے محبت کا سلسلہ جاری رہے گا اور وہ چینی کھانوں کی تلاش جاری رکھنے کے لیے محبتوں کے نئے سفر کا آغاز کریں گے۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ سرمائی اولمپکس نے چینی کھانوں کے روایتی اور ثقافتی ذائقو ں کو بھی خوب اجا گر کیا۔اس کے بعد، چینی ثقافت کی ترویج میں نمایاں کردار ادا کرنے والے چینی کھانوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور دنیا بھر میں ان کھانوں کی پسندیدگی پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑھے گی۔سرمائی اولمپک ویلج میں روایتی چینی طب کا تجربہ ہال بھی بہت زیادہ “مقبول” رہا ہے اور بہت سے غیر ملکی کھلاڑی یہاں آتے رہے ہیں۔
روایتی چینی طب کے ایکوپنکچر، مساج، ہڈیوں کی ترتیب اور دیگر علاج کے طریقوں نے کھیلوں کی چوٹوں کے علاج میں ایک نئی جہت متعارف کروائی ہے۔ 5,000 سالوں کی تاریخ کی حامل شاندار چینی طبی ثقافت اور روایتی چینی ادویات نے دنیا بھرپور توجہ حاصل کی ہے۔کھیلوں کے مقامات میں بھی چینی ثقافتی عناصر نمایاں نظر آئے، اگر ہم بات کریں نیشنل اسکی جمپنگ سینٹر کی ،اس کی شکل روایتی چینی زیور “روئی ” سے مماثلت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جگہ کا نام سنو روئی رکھا گیا۔ اسی طرح بیجنگ سرمائی اولمپک ویلج قدیم بیجنگ کی روایتی طرز تعمیر کے حامل رہائشی مکانات ” سی حہ یوان “کی خصوصیات کو اجاگر کرتے ہیں۔ اولمپک گیمز نے دنیا کے سامنے چین کی دیرینہ تعمیراتی ثقافت کی بھرپور نمائش کی ہے ،برفانی کھیلوں کے ذریعہ ثقافتی تبادلے اور باہمی سیکھنے کے عمل کو ایک پل کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ صرف زیادہ رابطے اور افہام و تفہیم سے ہی دنیا چینی ثقافت سے زیادہ واقف ہوسکتی ہے۔ یہ تبادلے چینی ثقافت کو متعارف کروانے اور اس کی قبولیت بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سرمائی اولمپکس نے بلاشبہ دنیا کے لیے چینی ثقافت کو سمجھنے کا ایک نیا دروازہ کھولیا ہے ۔