اسلام آباد(صباح نیوز)حکومت نے سینیئر صحافی محسن بیگ کے گھر پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)کے گزشتہ روز مارے گئے چھاپے کو غیر قانونی قرار دینے والے اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے،
اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان سے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے ملاقات کی اور سینئر صحافی محسن بیگ کی گرفتاری پر بریفنگ دی۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے نور مقدم کیس اور اسامہ ستی کیس سے متعلق بھی بریفنگ دی گئی۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی کی وزیراعظم سے ملاقات کے وقت اٹارنی جنرل بھی موجود تھے،
میڈیا رپورٹس کے مطابق ملاقات میں نیاز اللہ نیازی نے کہا، جب ہم نے محسن بیگ کو پیش کردیا تھا تو عدالت کا آبزرویشن دینا قانونی طور پر نہیں تھا۔ محسن بیگ کی پیشی پر جمعہ کو خود عدالت میں موجود ہوں گا۔وزیراعظم کا کہنا تھا، کوئی قانون سے بالاتر نہیں، ہمارے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، حکومت کے اچھے کاموں کو بھی غلط پیش کررہے ہیں۔ ملاقات کے بعدایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں، محسن بیگ نے ادارے کے اہلکاروں پر فائرنگ کی، ایڈیشنل سیشن جج نے اپنے فیصلے میں جو لکھا ہے وہ مینڈیٹ سے تجاوز ہے، جب بندہ آپ کے سامنے آگیا تو آپ کا مینڈیٹ ختم ہوگیا۔
نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج کیخلاف انتظامی طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دیں گے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے ایڈیشنل سیشن جج کے خلاف کارروائی کی درخواست کریں گے۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ جج کی آبزرویشنز متعصبانہ ہیں جو ان کا مینڈیٹ نہیں تھا، چیف جسٹس کو انتظامی سطح پر بھیجی جانے والی شکایت جج کیخلاف ریفرنس ہوگی۔خیال رہے کہ وفاقی وزیر مراد سعید کی شکایت پر محسن بیگ کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ نے بدھ 16 فروری کی صبح 9 بجے مقدمہ درج کیا۔چند منٹ بعد ہی ایف آئی اے کی ایک ٹیم اسلام آباد میں محسن بیگ کے گھر چھاپہ مارنے جا پہنچی اور وہ بھی بغیر کسی وارنٹ کے۔
اس دوران ایف آئی اے ٹیم کی محسن بیگ ، ان کے بیٹے حمزہ بیگ اور ان کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہاتھا پائی ہوئی اور ایک فائر بھی ہوا۔محسن بیگ کے بیٹے نے ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ابتدائی طور پر ایسا لگا کہ ان کے گھر چور آگئے ہیں، میرے والد کو گرفتار کرلیا، گھسیٹ کرلے گئے۔سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کے لے جانے پر اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی جبکہ اسی اثنا میں پولیس نے ایف آئی اے کے ہمراہ محسن بیگ کو تھانہ مارگلہ منتقل کیا جہاں ان کے خلاف ایف آئی اے ٹیم پر حملہ کرنے کے الزام میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا۔دہشتگردی کا مقدمہ درج ہونے کی وجہ سے محسن بیگ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا جس نے ان کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
بعد ازاں محسن بیگ کے گھر پر چھاپے سے متعلق ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا جس کے مطابق ایف آئی اے کی ایف آئی آر 9 بجے درج ہوئی، ایف آئی اے اور مارگلہ پولیس کی ایف آئی آر سے واضح ہے کہ محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ غیرقانونی تھا، ان لوگوں نے محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مارا جن کے پاس چھاپے کا اختیار ہی نہیں۔عدالت کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے نے ساڑھے 9 بجے چھاپہ مارا تھا، ایف آئی اے نے بغیر کسی ثبوت کے چھاپہ مارا، کسی محلے دار کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا گیا۔عدالت نے حکم دیا کہ پولیس محسن بیگ کا بیان ریکارڈ کرے اور قانون کے مطابق کارروائی کرے۔عدالت کا کہنا ہے کہ بغیر کسی سرچ وارنٹ کے چھاپہ مارا گیا، ایف آئی اے اورایس ایچ او کی ایف آئی آر سے ثابت ہوتا ہے چھاپہ غیر قانونی مارا گیا، تھانہ مارگلہ ایس ایچ او نے ان افراد کیخلاف مقدمہ درج کرنے کے بجائے الگ مقدمہ بنایا، ایس ایچ او نے جعلی کارکردگی دکھانے کے لیے مقدمہ درج کیا۔
عدالت نے ایس ایچ او کو واقعے سے متعلق مبینہ زیر حراست شخص کی درخواست پرکارروائی کی ہدایت کی اور کہا کہ اگر درخواست دی جائے تو اس حکم نامے کے ساتھ آئی جی پولیس اسلام آباد کو بھیجی جائے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آئی جی اسلام آباد کو دی گئی درخواست ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کیلئے بھجوائی جائے۔عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے مبینہ زیرحراست شخص کوانسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کیاگیا، اور عدالت کی جانب سے تین دن کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا ہے، مبینہ زیر حراست شخص اے ٹی سی کی جوڈیشل تحویل میں ہے لہذا اے ٹی سی مبینہ حراست کی قانونی حیثیت کا تعین کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔۔