اسلام آباد(صباح نیوز)وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے ماحولیاتی تبدیلی اور رابطہ رومینہ خورشید عالم نے کہا ہے کہ پاکستان کاربن ٹریڈنگ اور موسمیاتی لچک میں خطے کا رہنما بننے کے لئے پرعزم ہے۔ وفاقی حکومت، صوبائی اداروں اور قانون ساز اسمبلیوں کے ساتھ مل کر آرٹیکل 6 پر عمل درآمد اور مقامی شراکت داری کو فروغ دینے کیلئے کوشاںہے۔ آرٹیکل 6، کاربن مارکیٹوں کو فعال بنانے اور پائیدار ترقی کے لئے لچک کی بنیاد رکھنے کا ایک نادر موقع فراہم کرتا ہے۔
وہ یہاں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) اور ڈنمارک کے سفارت خانے کے اشتراک سے پیرس معاہدے کے آرٹیکل 6 کی آپریشنلائزیشن کے موضوع پر ایک پالیسی مکالمے سے خطاب کر رہی تھیں۔ انہوں نے آذربائیجان میں منعقدہ سی او پی 29 کے دوران پاکستانی وفد کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر پاکستان کو نمایاں پذیرائی ملی ۔
انہوں نے مزید کہا کہ کاربن ٹریڈنگ میں قیادت کے لئے پاکستان کے فعال کردار کو تسلیم کیا جا رہا ہے تاہم صلاحیت کی کمی اور ضوابطی خامیوں جیسے چیلنجوں کے باوجود جنگلات، قابل تجدید توانائی اور دیگر شعبوں میں مواقع بے شمار ہیں۔رومینہ خورشید عالم نے کاربن کی موثر تجارت کیلئے سخت نگرانی، رپورٹنگ اور توثیق کے نظام کی اہمیت پر زور دیا۔انہوںنے مضبوط جنوبی جنوبی تعاون پر زور دیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کوئی بھی ملک کاربن غیر جانبداری کے حصول میں پیچھے نہ رہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آرٹیکل 6 کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بین الاقوامی شراکت داروں، صوبائی حکومتوں اور نجی اداروں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ڈنمارک کے سفیر جیکب لنلف نے ایس ڈی پی آئی اور ڈنمارک کے تعاون کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ شراکت پاکستان کوماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔
ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کاربن مارکیٹوں میں شفافیت کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم (سی بی اے ایم) جیسے عالمی فریم ورکس سے ہم آہنگ ہونا ہوگا۔ انہوں نے تجویز دی کہ فوسل فیول سبسڈی کے خاتمے، قابل تجدید توانائی کے فروغ اور صاف توانائی کے حل کو اپنانے سے کاربن کریڈٹ کو ترقیاتی منصوبوں کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آزاد ایکریڈیٹیشن باڈیز قائم کرنے اور کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم (سی بی اے ایم) جیسے بین الاقوامی فریم ورک کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے ذوالفقار یونس نے کہا کہ پاکستان فروری تک اپنی مرضی کے مطابق کاربن رجسٹری کا آغاز کرے گا جس سے شفاف تجارت کو فروغ ملے گا اور بین الاقوامی کاربن فنانس مارکیٹوں تک رسائی ممکن ہو سکے گی۔ ایس ڈی پی آئی کے بورد آف ڈائریکٹر ز کے چیئرمین شفقت کاکاخیل نے توانائی کے شعبے کو جیواشم ایندھن سے مقامی طور پر دستیاب قابل تجدید ذرائع جیسے بائیو ماس، پانی، شمسی اور ہوا کی طرف منتقل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ سینئر کنسلٹنٹ اور ممبر کلائمیٹ چینج اتھارٹی احسن کرمان نے صوبائی حکومتوں کے تعاون سے 13 پراجیکٹ آئیڈیاز تیار کرنے کا اعلان کیا۔
ماہرین نے سی او پی 29 کے نتائج سے فائدہ اٹھانے اور گرین انرجی، ٹرانسپورٹ، جنگلات اور ویسٹ مینجمنٹ جیسے منصوبوں کے ذریعے آرٹیکل 6 پر عمل درآمد کو یقینی بنانے پر زور دیا۔ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شفقت منیر نے اپنے اختتامی کلمات میں شراکت داروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ “بین الاقوامی کاربن ٹریڈنگ میکانزم کے فوائد سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہماری تیاری انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تیاری بین الاقوامی کاربن ٹریڈنگ میکانزم کے فوائد کو حاصل کرنے میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ دیگر مالیاتی آلات کی نوعیت اور مضمرات کو سمجھنا بھی ضروری ہے جو کاربن مارکیٹوں کے مکمل رول آوٹ کے دوران دستیاب ہوں گے۔