اسکولوں میں قرآن مجیداوراسلامیات کی تعلیم دینے بارے دائر درخواست پر اعتراضات دور ،سپریم کورٹ میں باقاعدہ سماعت کے لئے منظور

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے اسکولوں میں قرآن مجیداوراسلامیات کی تعلیم دینے حوالہ سے دائر درخواست پر رجسٹرارآفس کے اعتراضات دورکرتے ہوئے باقاعدہ سماعت کے لئے منظور تے ہوئے آفس کونمبر لگانے کی ہدایت کردی۔ بینچ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کونوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ انگلش، اُردو، عربی اورصوبوں کی اپنی زبانیں بھی ہیں کتنی زبانوں میں ترجمہ پڑھائیں گے۔

جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین کاآرٹیکل 31پالیسی کے حوالہ سے ہے عدالت کیسے اس میں مداخلت کرسکتی ہے، پارلیمنٹ پالیسی بنانے اوراس کے نفاذ کے حوالہ بااختیار ہے، ہم نے پالیسی معاملات کی ڈومین کودیکھنا ہے، کیسے آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت سپریم کورٹ پالیسی کے نفاذ کاکام سرانجام دے۔ ویب پرچیزیں پڑی ہیں وہ کنٹرول نہیں ہوسکتیں، پی ٹی اے نے دیکھنا ہے، خدانخواسہ، نعوذُبااللہ، اگرغلط ترجمہ ویب پر پڑا ہے اور جو لوگوں کوگمراہ کررہا ہے تواسے پی ٹی اے سے بلاک کروائیں ، درخواست گزارنے ان سائٹس کی تفصیلات دینی ہیں تاکہ ان کوبلاک کروائیں۔جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں قرآن مجید پڑھنے سے زیادہ اس پر عملدرآمدکروانے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج اور آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 7رکنی لارجر بینچ نے ہائی کورٹ کے وکیل ملک انیق علی کھٹانہ کی جانب سے اسکولوں میں قرآن مجید اور اسلامیات کی لازمی تعلیم دینے کے حوالہ سے دائردرخواست پرسماعت کی۔ بینچ نے رجسٹرارآفس کے اعتراضات کے ساتھ درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزارنے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکردلائل دیئے۔ درخواست میں وفاقی حکومت اوردیگر کو وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت کے توسط سے فریق بنایا گیاہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آئین کاآرٹیکل 31پالیسی کے حوالہ سے ہے عدالت کیسے اس میں مداخلت کرسکتی ہے، پارلیمنٹ پالیسی بنانے اوراس کے نفاذ کے حوالہ بااختیار ہے، ہم نے پالیسی معاملات کی ڈومین کودیکھنا ہے، کیسے آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت سپریم کورٹ پالیسی کے نفاذ کاکام سرانجام دے۔وکیل انیق علی کھٹانہ کا کہنا تھا کہ درخواست میں آئین کے آرٹیکلز کے تحت دینی تعلیم کو لازمی کرنے کی استدعا ہے، قرآن پاک کے ایک ترجمہ پر تمام علما کرام کا اتفاق ہو چکا ہے، ایک ترجمہ کا نوٹیفکیشن بھی ہو چکا ہے، سندھ اور بلوچستان میں قرآن پاک کی تعلیم نہیں دی جاتی۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ 1971-72کی بات ہے جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو ناظہر کاپہلا پیریڈ ہوتا تھا۔ جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کی معلومات مکمل نہیں،بلوچستان میں بھی قرآن کی تعلیم پر 2024میں قانون بن چکا ہے، اس سال شاید قرآن پاک کی تعلیم لازمی پڑھانے کے قانون پر عمل ہو جائے۔وکیل انیق کھٹانہ نے کہا کہ آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے، سیکنڈز میں قرآن کا ترجمہ تبدیل ہو جاتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ انگلش، اُردو، عربی اورصوبوں کی اپنی زبانیں بھی ہیں کتنی زبانوں میں ترجمہ پڑھائیں گے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ بچپن میں ہم نے قرآن مجید ناظرہ پڑھ لیااور بڑے ہوکرترجمہ بھی پڑھ لیااب سندھ والے بھی پڑھ لیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ عربی ٹیکسٹ ہرجگہ ایک ہے اُردو ترجمہ بدلاجاسکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پروف ریڈنگ کے بعد قرآن مجید کی چھپائی ہوتی ہے، درخواست گزار کیا کہہ رہے ہیں، ایسے تھوڑی چھپتا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ مختلف قرائت اور ایپس موجود ہیں، اگرایک ہی ترجمہ ہوگاتویہ اختلاف کی وجہ بن جائے گااورہرعالم دین اپنی بات کرے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ درخواست گزاردرخواست سے آگے نکل گئے ، درخواست میں قرآن کی لازمی تعلیم دینے کی استدعا کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ویب پرچیزیں پڑی ہیں وہ کنٹرول نہیں ہوسکتیں، پی ٹی اے نے دیکھنا ہے، خدانخواسہ، نعوذُبااللہ، اگرغلط ترجمہ ویب پر پڑا ہے اور جو لوگوں کوگمراہ کررہا ہے تواسے پی ٹی اے سے بلاک کروائیں ، درخواست گزارنے ان سائٹس کی تفصیلات دینی ہیں تاکہ ان کوبلاک کروائیں۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ قرآن مجید پڑھنے سے زیادہ اس پر عملدرآمدکروانے کی ضرورت ہے۔ بینچ نے درخواست گزاروکیل کے دلائل سننے کے بعد رجسٹرارآفس کے اعتراضات ختم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے آفس کودرخواست کونمبر لگاکرسماعت کے لئے مقررکرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے درخواست اٹارنی جنرل اور تمام صوبوں کو ایڈووکیٹ جنرلز کونوٹس جاری کردیا۔ بعد ازاں آئینی بنچ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔ ZS