آئینی بینچ ،وفاقی حکومت سے کچی آبادی سے متعلق2ہفتے میں پالیسی رپورٹ طلب

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے کچی آبادی کیس میں وفاقی حکومت سے کچی آبادی سے متعلق2ہفتے کے اندر پالیسی رپورٹ طلب کرلی جبکہ بینچ نے قراردیا ہے کہ صوبے اور مقامی حکومتیں کچی آبادیوں کے حوالے سے اپنی پالیسی بناسکتی ہیں جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کچی آبادیاں صوبائی اورمقامی حکومتوں کامسئلہ ہے، ہم حکومت کوکیسے دھکا دیں۔ اگر جواب طلب کرتے رہیں گے تویہ کیس جو 2015سے زیر التوا ہے مزید 15سال زیر التوارہے گا۔

جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ صوبائی اختیار پر وفاقی حکومت کیا قانون سازی کر سکتی ہے، پہلے تو یہ بتایا جائے کچی آبادی کیا ہوتی ہے، بلوچستان میں تو سارے گھر کچے ہیں۔ اگر کسی کے حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے توہے تووہ عدالت جاسکتے ہیں، ہم حکومتوں کو ہدایات جاری نہیں کرسکتے۔اگر کسی جگہ تعمیرات کے سلسلہ میں کوئی کیمپ بنایا جائے اورکام 10یا15سال چلتا ہے توکیا وہ جگہ کیمپ میں رہنے والوں کوالاٹ کردیں، یہ آئینی عدالت ہے قانون بتادیں کس طرح حکومت کوہدایات دیں۔ حکومت فیصلہ کرکے بتائے، ہماری خواہش ہے کہ کچی آبادی کے رہائشیوں کوایڈجست کریں۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم پالیسی نہیں دیں گے یہ حکومت کاصوابدیدی اختیار ہے۔

اگر حکم امتناع ہے تو عدالت سے اس کو ختم کرائیں، تجاوزات کیسے بن جاتی ہے، تجاوزات کی تعمیر میں ادارے کے لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں، سب سے پہلے چھپر ہوٹل بنتا ہے، پھر وہاں آہستہ آہستہ آبادی بن جاتی ہے۔جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ قبضہ گروپ ہوتے ہیں جو ندی نالوں کے کنارے کچی آبادی بنا لیتے ہیں، عوامی فلاح وبہبود کے پلاٹ پر کچی آبادی مکانات بن جاتے ہیں، حکومت نے کچی آبادی کو روکنے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج اور آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 7رکنی لارجر بینچ نے سوموار کے روز فائنل کاز لسٹ میں شامل 10کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے عاصم سجاد اختراوردیگر کی جانب سے اسلام آباد سے کچی آبادیوں کوختم کرنے کے خلاف2015میں دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست میں وفاق پاکستان اوردیگرکوفریق بنایا گیا ہے۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس محمد علی مظہر نے سی ڈی اے وکیل محمد منیر پراچہ سے استفسارکیا کہ کیاآپ کی پالیسی تیار ہوگئی ہے، کچی آبادی کے حوالہ سے کیا پالیسی بنانے والے تھے اس کی بنیادکیا تھی۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کچی آبادی کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار رو صوبوں اور لوکل گورنمنٹ کا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی کاایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے پاس مناسب ہدایات نہیں ، آپ کی باتوں سے اندازہ ہورہا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ یہ لوکل گورنمٹ کامعاملہ ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کارشتہ ابھی کچا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ صوبائی اختیار پر وفاقی حکومت کیا قانون سازی کر سکتی ہے، پہلے تو یہ بتایا جائے کچی آبادی کیا ہوتی ہے، بلوچستان میں تو سارے گھر کچے ہیں۔

جسٹس سید حسن اظہر رضوی  نے کہا کہ یہ قبضہ گروپ ہوتے ہیں جو ندی نالوں کے کنارے کچی آبادی بنا لیتے ہیں، عوامی فلاح وبہبود کے پلاٹ پر کچی آبادی مکانات بن جاتے ہیں، حکومت نے کچی آبادی کو روکنے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔وکیل سی ڈی اے محمد منیرپراچہ نے کہا کہ سب سے پہلے تو کچی آبادی کی تعریف طے کی جائے، سی ڈی اے نے 10کچی آبادیوں کو نوٹیفائی کر رکھا ہے، یا ان کچی آبادیوں کو سہولتیں دیں گے یا متنادل جگہ دیں گے۔جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ اِن کوہٹانے یا بسانے کی بات کررہے ہیں، ماضی میں کراچی میں سپریم کورٹ کے حکم پر بہت سی عمارتیں توڑی گئیں اور لوگوں کو باہر نکالا گیا، کیااسلام آباد میں بھی یہی کرنا چاہتے ہیں، اسلام آباد کے لئے قانون بنائیں، سندھ میں قانون ہے لاہور میں بھی ہوگا۔

جسٹس محمد مظہر کاکہنا تھا کہ کچی آبادی نوٹیفائی ہوتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کچی آبادی کے رہائشی باہر جاکرکہاں رہیں گے۔ جسٹس امین الدین خان کادرخواست کے وکیل بلال حسن منٹو سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ معاملہ کاحل پیش کریں، کیا چاہتے ہیں، یہ صوبائی اورمقامی حکومتوں کامسئلہ ہے۔ درخواست گزارکے وکیل کاکہنا تھا کہ ہم لاء اینڈ جسٹس کمیشن کوکچی آبادیوں کے حوالہ سے بل تیارکرکے دیا ہوا ہے بینچ اس بل پروفاقی اورصوبائی حکومتوں سے جواب طلب کرلے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر کسی کے حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے توہے تووہ عدالت جاسکتے ہیں، ہم حکومتوں کو ہدایات جاری نہیں کرسکتے۔

درخواست گزارکے وکیل کاکہنا تھا کہ اسلام آباد میں 40سال سے کچی آبادی موجود ہے جو شہر میں صفائی ستھرائی کاکام کرتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر کسی جگہ تعمیرات کے سلسلہ میں کوئی کیمپ بنایا جائے اورکام 10یا15سال چلتا ہے توکیا وہ جگہ کیمپ میں رہنے والوں کوالاٹ کردیں، یہ آئینی عدالت ہے قانون بتادیں کس طرح حکومت کوہدایات دیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم حکومت کوکیسے دھکا دیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل جواب جمع کروائیں کیونکہ یہ اسلام آباد کامعاملہ ہے، کیا ری لوکیشن کے حوالہ سے کوئی امکان ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہم پالیسی نہیں دیں گے یہ حکومت کاصوابدیدی اختیار ہے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا 23مئی2023کوحکم پاس ہوا ہے کیا اس حکم کی تعمیل میں رپورٹ جمع کروائی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ کچی آبادیاں اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہرکاکہنا تھا کہ کچی آبادیوں والوں کوخدشہ ہوتا ہے کہ اُن کو شوکاز نوٹس دیئے بغیر بلڈوزرچلاکرگرادیں گے،

درخواست میں آئین کے آرٹیکل 10-Aکا ذکر کرنے کامقصد یہ ہے کہ کل آکر بلڈوزر چلادیں گے، کراچی کاکیس دہرایاجائے گایہ توڑ دیا وہ توڑدیا۔ سی ڈی اے وکیل کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے بورڈ بیٹھ جائے گامگرقانون سازی وفاقی حکومت نے کرنی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ حکومت فیصلہ کرکے بتائے، ہماری خواہش ہے کہ کچی آبادی کے رہائشیوں کوایڈجست کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیسے تجاوزات بننے دیتے ہیں، محکمہ کیسے بننے دیتا ہے، ادارے کے لوگ بھی اس میں ملوث ہوتے ہیں، حکم امتناع ہے تو عدالت سے اس کو ختم کرائیں، تجاوزات کیسے بن جاتی ہے، تجاوزات کی تعمیر میں ادارے کے لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں، سب سے پہلے چھپر ہوٹل بنتا ہے، پھر وہاں آہستہ آہستہ آبادی بن جاتی ہے۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر جواب طلب کرتے رہیں گے تویہ کیس جو 2015سے زیر التوا ہے مزید 15سال زیر التوارہے گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہرصوبے کے اپنے حالات ہیں اُن کواپنے حال پررہنے دیں، متعلقہ ہائی کورٹ میں متاثرہ طبقہ جاسکتا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ صوبے درخواست میں فریق نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے اوروفاق نے ان کوبسانا ہے یانکالنا ہے۔ بینچ نے وفاقی حکومت اور سی ڈی اے کوہدایت کی کہ وہ کچی آبادیوں کے حوالہ سے پالیسی کے حوالہ سے 15روز کے اندر عدالت کوآگاہ کرے۔صوبے اور مقامی حکومتیں کچی آبادیوں کے حوالہ سے اپنی پالیسی بناسکتی ہیں۔ جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ قانون سازی کے حوالہ سے بھی وفاق اورصوبے بتائیں۔بعد ازاں بینچ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔