ڈھاکہ (صباح نیوز) بنگلہ دیش نے 2009 میں ناکام فوجی بغاوت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کا حکم دے دیا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پرتشدد بغاوت کے باعث جنوبی ایشیا کی قوم میں صدمے کی لہر دوڑ گئی تھی اور بغاوت کرنے والوں کو فوج کی طرف سے کچلنے کے ساتھ ختم ہوا تھا، اس دوران متعدد شہریوں کو گرفتار کیا گیا اور موت کی سزا سنائی گئی تھی۔بغاوت جس میں کئی لوگ مارے گئے، اس کی سابقہ سرکاری تحقیقات میں عام فوجیوں میں برسوں سے پائے جانے والے غصے کو وجہ ٹھہرایا گیا جب کہ اہلکاروں نے محسوس کیا کہ تنخواہوں میں اضافے اور بہتر برتا کے لیے ان کی اپیلوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔لیکن یہ تحقیقات شیخ حسینہ کے دور میں کی گئی تھیں جنہیں اگست میں ایک انقلاب کے ذریعے وزیر اعظم کے عہدے سے معزول کر دیا گیا تھا اور وہ پرانے حلیف بھارت بھاگ گئیں تھیں۔اس کے زوال کے بعد سے تشدد میں مارے گئے فوجیوں کے اہل خانہ تحقیقات کو دوبارہ کھولنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
انہوں نے بارہا شیخ حسینہ پر الزام لگایا کہ وہ بغاوت کے خطرے سے دوچار رہنے والے ملک میں خود کو مضبوط کرنے کے لیے فوج کو کمزور کرنے کا منصوبہ بنا رہی تھیں۔مظاہرین نے اس سازش میں بھارت کے ملوث ہونے کا بھی الزام لگایا ہے۔ان دعوؤں کی وجہ سے بھارت کے مشتعل ہونے کا خدشہ ہے جب کہ اس نے فوری طور پر الزامات کا جواب نہیں دیا۔انکوائری کمیشن کے سربراہ اے ایل ایم فضل الرحمن نے صحافیوں کو بتایا ہمارا مقصد اس بات کا تعین کرنا ہے کہ آیا اس سانحے میں کسی بیرنی عنصر کا کردار تھا یا نہیں جب کہ قومی اور عالمی سازش کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔باغیوں نے فروری 2009 میں بیرکوں میں قتل و غارت گری شروع کرنے سے قبل نیم فوجی فورس بنگلہ دیش رائفلز (بی ڈی آر) کے ہیڈکوارٹر سے ہزاروں ہتھیار چرا لیے تھے۔
آرمی کی جانب سے کچلے جانے سے قبل بغاوت تیزی سے پھیلی اور ہزاروں فوجیوں نے ہتھیاروں پر قبضہ کر لیا اور باغیوں سے وفاداری کا عہد کیا گیا۔اس قتل عام کے بعد ہزاروں افراد کو پکڑ کر خصوصی فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا گیا جب کہ شییخ حسینہ کی اس وقت کی نو منتخب حکومت نے دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی۔سیکڑوں فوجیوں کو موت سے لے کر چند سال تک قید کی سزائیں دی گئیں جب کہ اقوام متحدہ نے بنیادی معیارات پر پورا نہ اترنے پر سزا دینے کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔شیخ حسینہ کی آہنی ہاتھوں والی حکمرانی کو نئی دہلی کی حمایت حاصل تھی اور 77 سالہ سابق وزیر اعظم ان دنوں بھارت میں ہی رہ رہی ہیں جب کہ اس سے دونوں ملک کے درمیان تعلقات میں تنا پیدا ہوگیا ہے۔پیر کے روز بنگلہ دیش نے کہا کہ اس نے بھارت سے حسینہ واجد کو واپس بھیجنے کی درخواست کی ہے تاکہ وہ قتل عام اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا سامنا کریں