سماجی ترقی کی سائنس … تحریر :نعیم قاسم

سماجی ترقی ایک نامیاتی عمل اور زندہ عمل ہے _جس طرح انسانی جسم کے تمام اعضاء کی نشوونما ایک ساتھ ہوتی ہے، اسی طرح قدرت نے سماج کے تمام طبقات اور شعبوں کی متوازن ترقی کا ایک قدرتی اور فطری عمل وضع کر رکھا ہے مگر چند انسانوں کی خود غرضیوں اور مفادات نے سماجی اور معاشرتی ترقی کے نامیاتی اور مربوط فطری عمل کو غیر ہموار کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی ہے جس سے کسی معاشرے میں رہنے والے کچھ طبقات، علاقے، گروہ، افراد اور شعبے تو پھلتے پھولتے اور خوشحالی کے ثمرات سے مستفید ہوتے ہیں مگر اکثر یت اسکی قیمت ادا کرنے کے باوجود محرومیوں کا شکار رہتی ہے مثلاً پاکستان کے عوام کی اکثریت براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں مگر ان کے ٹیکسوں کی کمائی سے اسمبلی ممبران، وزراء مشیروں اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا بیگ اٹھانے والی خادمہ، فون اور ڈائری اٹھانے والے ذاتی خادم (جو اب سرکاری اسسٹنٹ کے عہدے پر فائز ہیں) کی تنخواہوں میں چھ سو فیصد اضافہ کر دیا جاتا ہے اب ایم پی اے 4 لاکھ، ایڈوائزرز اور ذاتی ملازمین ساڑھے چھ لاکھ، وزراء اور سپیکرز نو لاکھ سے زائد تنخواہ لینے کے اہل ہیں اور اس کے علاوہ گھر، پٹرول اور ٹی اے ڈی اے کی مالی سہولیات الگ ہیں جبکہ دوسری طرف ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشنز میں اضافہ ختم کر دیا گیا ہے وفاقی حکومت نے ججز کی تنخواہوں اور مراعات کو بیس لاکھ سے چالیس لاکھ کر دیا ہے مگر رائٹ سائزنگ کے نام پر معمولی درجے کے ہزاروں ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر دیا ہے شرح سود کم کرنے سے بڑے بڑے کاروباری اور صنعتی گروپوں کو تو فائدہ ہو گا مگر وہ غریب افراد، بیواؤں اور ریٹائرڈ افراد نے قومی بچت کے مراکز میں اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیسے جمع کرائے ہوتے ہیں ان کی شرح منافع میں بھی 50 فیصد کمی کر دی گئی ہے حالانکہ وزیر خزانہ خود اعتراف کر رہا ہے کہ مڈل مین کے کردار کی وجہ سے بنیادی ضروریات زندگی کی چیزوں میں کمی واقع نہیں ہو رہی ہے اگر خوراک اور توانائی کی قیمتوں کو الگ کر کے کور اانفلیشن کے سرکاری اعدادوشمار کو دیکھیں تو یہ ساڑھے نو فیصد پر برقرار ہے یعنی عام آدمی کی نہ آآمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور نہ قوت خرید بہتر ہوئی ہے بلکہ معمولی بچت سے تھوڑا بہت منافع حاصل کرنے والوں کی آمدنیوں میں کمی ہوئی ہے مگر حکومت ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے کہ سٹاک ایکسچینج کے بوم سے عوام خوشحال ہو رہے ہیں جہاں چند ہزار للوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں جبکہ کڑووں افراد کو اس کے ڈائنمکس کا قطعاً کچھ پتہ نہیں ہے اور اگر وہ کہیں اس میں سرمایہ کاری کر بھی دیں تو نقصان اٹھاتے ہیں جب حکمران طبقے کے ذاتی مفادات کی وجہ سے معاشرتی طبقوں اور معاشی ااجزاء میں اسقدر تفاوت پیدا ہو جائے تو سماج کے تاروپود بکھرنا ایک قدرتی عمل ٹھہر جا تا ہے جیسے جیسے سماجی اور معاشی ناہمواریوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ہر طرف فساد، بد انتظامی، کرپشن اور انتشار جنم لیتا ہے اور اکثر ایسے ممالک ٹوٹ جاتے ہیں جب شیخ مجیب الرحمٰن نے یہ کہا کہ اسے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے _____تو اس ایک فقرے نے مشرقی پاکستان کے عوام کے دل ودماغ میں احساس محرومی کو کئ گنا بڑھا دیا اور بالآخر وہ بنگلہ دیشی بن گیا جسے ہم پاکستان کی سماجی موت کہ سکتے ہیں کیونکہ جب طاقت ور افراد کا سٹیٹس کو سماج کے کسی ایک طبقے، گروہ یا قوم کا طرفدار ہو جاتا ہے اور باقی شعبہ جات زندگی اور طبقات کو نظر انداز کر دیا جا تا ہے تو ترقی کی فریب کاریوں سے عظیم تر فساد الارض جنم لیتا ہے ایوب خان ترقی کا گولڈن ایرا پر جشن منا رہا تھا مٹھی بھر فوجی اور سول افسران کے علاوہ منظور نظر صنعت کاروں، تاجروں اور جاگیرداروں کو معاشی ثمرات مل رہے تھے بقول ڈاکٹر محبوب الحق پاکستان میں دولت با ئیس خاندانوں میں مرتکز ہو گئ تھی لیکن اسکا نتیجہ کیا نکلا ____پاکستان ٹوٹ گیا ___وہ ترقی جو فطری سسٹم سے الگ تھلگ ہو وہ ایک ایسا فریبی جال ہوتی ہے جو معاشرتی وحدت کو آخرکار ختم کر دیتی ہے آج ذرائع پیداوار، ذرائع نقل وحمل اور ذرائع مواصلات کے بے دریغ درآمدات نے پاکستان کو غیر ملکی ادائیگیوں کے شدید بحران میں دھکیل رکھا ہے سڑکوں پر اسقدر گاڑیاں آگئی ہیں کہ پاکستان کی ہفتہ بھر کی پیداوار کی کمائی ایک دن میں یہ گاژیاں درآمد ی پٹرول کی نذر کر دیتی ہیں 20 کڑور لوگ موبائل فون استعمال کر رہے ہیں سامان تعیش اور پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات نے تجارتی خساروں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا تو سرکاری بابوؤں کی کرپشن اور حکمران طبقے کی عیاشیوں اور غلط معاشی ترجیحات نے مالیاتی خسارے اور سرکلر ڈیٹ کے عفریت کو جنم دیا تو دھڑا دھڑ غیر ملکی قرضوں نے پاکستان کو سامراجی اداروں کا معاشی نو آبادیاتی غلام بنا کر رکھ دیا ہے آج ہم عوام پر ٹیکس اور بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین آئی ایم ایف کی منظوری سے کرتے ہیں ہمارے حکمران سٹیٹ کرافٹ اور جدلیاتی سائنس سے نابلد ہونے کی وجہ سے کبھی قومی ترقی کے منطقی عمل کو سمجھ ہی نہیں پائے جو متوازن سماجی اور معاشی ترقی کی روح رواں ہوتی ہے دیہی آبادی اور شہری آبادی کے تعلقات کی روح کو کبھی نہیں سمجھا گیا دیہات کے علاقوں کے زرعی رقبوں کو ہاوسنگ سکیموں میں بدل دیا اور بیروزگاری سے تنگ آکر لوگ کی دیہاتوں سے شہروں میں نقل مکانی تیز ہو گئی جس سے شہروں کی سوک سروسز کا سسٹم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا جو کھیت کھلیان بچ گئے وہاں مشینی کاشتکاری نے دیہات میں رہنے والوں اور شہروں میں رہنے والوں کے درمیان نئے مالیاتی رشتے قائم کر دیئے دیہاتی اور شہری زندگی میں ٹی وی کیبل انڑنیٹ اور سوشل میڈیا نے سوچ اور فکر میں فرق کو ختم کر دیا منافع کی لالچ میں دیہات کے لوگوں نے ماں جیسی زمینیں بیچنا شروع کردیں جس سے زراعت سے جڑی سماجی اور معاشرتی اقدار یکسر تبدیل ہو گئیں ہمارے ہاں کبھی نیشنلزم کبھی ڈی نیشنلزم ، ڈی کنٹرول اور ڈی ریگولرولیشن کی پالیسیوں نے معاشی ترقی کے ہموار سفر میں ہمیشہ رکاوٹیں ڈالیں جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ پسماندگی، فرسودگی اور معاشی بحرانوں کی وجہ سے ہماری شہ رگ عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں میں آچکی ہے گلوبل یلج کے فریب میں آزادانہ تجارت نے ہمیں غیر ملکی اشیاء کی منڈی بنا دیا ہے ہمارے صنعتی ادارے مسابقت سے قاصر ہیں جس سے ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیروزگار فوج، تجارتی خساروں اور مالیاتی خساروں کا عفریت، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ اور ان کی حقیقی آمدنی میں کمی نے ملک و ملت کو تباہی بربادی کا شکار کر رکھا ہے آج خواجہ آصف فرما رہے ہیں کہ اگر پاکستان سے 50 فیصد کرپشن ختم ہو جائے تو ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت نہ رہے کوئی ان سے پوچھے تیس سالوں سے وقت فوقتاً مسلم لیگ ن کی حکومت رہی ہے تو یہ کرپشن کس نے ختم کرنی تھی آپ اور پیپلز پارٹی اور فوجی ڈکٹیٹر ز کی 74 سالہ کرپشن کا ملبہ عمران خان پر ڈالنے سے تاریخ کے کٹہرے میں آپ کو معافی نہیں ملے گی اگر قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بات کرنا غداری ہے تومعاشرے کی شکست وریخت کرنے والی ایلیٹ اور ان کے سابقہ اور موجودہ حواری بھی قومی مجرم ہیں جن کی ہوس اقتدار اور دولت نے کڑووں لوگوں کو غربت افلاس اور معاشی و سماجی ناانصافیوں کے جہنم میں کھیل رکھا ہے