وزیر اعظم جناب محمد شہباز شریف مصر کے دارالحکومت، قاہرہ، میں ہیں ۔ اُن سے دو روز قبل وزیر خارجہ ، جناب اسحاق ڈار، بھی قاہرہ پہنچ گئے تھے ۔ قاہرہ جہاں جامعہ ازہر ایسی صدیوں پرانی درسگاہ بھی ہے اور جس کے قرب و جوار میں ہزاروں سالہ قدیم فراعنہ مصر کے حیرت انگیز آثار، اہرام، بھی ہیں ۔اِسی تاریخی شہر، قاہرہ، میں ڈی ایٹ کی سہ روزہ(18دسمبر تا20دسمبر) کانفرنس ہو رہی ہے ۔ آٹھ اسلامی ممالک کے حکمران اِس کانفرنس میں شریک ہیں ۔
ہمارے وزیر اعظم، جناب شہباز شریف، بھی اِسی ڈی ایٹ سربراہی کانفرنس میں موجود ہیں ۔ تقریباً تین عشرے قبل آٹھ ترقی پذیر اسلامی ممالک نے اِس اتحاد کی بنیاد رکھی تھی ۔ اِسے ’’ڈی ایٹ‘‘ سے موسوم کیا گیا ۔ ترکیے اِس اتحاد کا محرک اور محور تھا ۔ پاکستان ، بنگلہ دیش، ترکیے ، انڈونیشیا، ملائشیا، نائجیریا،ایران اور مصر اِس کے رکن ممالک ہیں ۔ ترکیے کا شہر، استنبول، اِس کا ہیڈ کوارٹرہے ۔ نائجیریا کے پاس آجکل اِس کی سیکرٹری جنرل شپ ہے ۔ نائجیریا کے ایک شہری، جناب عبدالقادر امام، جی ایٹ کے سیکرٹری جنرل ہیں ۔
ڈی ایٹ نے اپنے پلیٹ فارم سے، اپنے پچھلے اجلاس میں، متحدہ طور پر مطالبہ کیا تھا (۱) فلسطین کو اقوامِ متحدہ کی فُل ممبرشپ دی جائے(۲) ’’غزہ‘‘ میں فوری اور مکمل جنگ بندی کی جائے ۔ دونوں مطالبات ہی مگر پورے نہ ہو سکے ۔ اِسے ڈی ایٹ کی بدقسمتی بھی کہا جائیگا اور بنیادی کمزوری بھی ۔ اب جب کہ قاہرہ میں ڈی ایٹ کا11واں سربراہی اجلاس ہورہا ہے، اِس وقت بھی ’’غزہ‘‘ میں اسرائیل کی خونریزیاں اور تباہ کاریاں جاری ہیں ۔ کوئی عالمی طاقت اور ادارہ صہیونی ریاست کے دستِ ستم کو روک رہا ہے نہ روکنے کی استطاعت رکھتا ہے ۔
جو فی الحقیقت روکنے کی طاقت رکھتے ہیں ، وہ سبھی اسرائیل کے ساجھی اور ساتھی ہیں ۔ڈی ایٹ ، جس میں مسلم دُنیا کے ایک ارب 30کروڑ لوگ شامل ہیں، اپنے ممکنہ وسائل اور طاقت کے باوصف اسرائیل کی جارحیتوں ، دراندازیوں اور ستم کاریوں کا انسداد کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے ۔ سوال پھر یہ ہے کہ ڈی ایٹ ، او آئی سی ،ایس ایم آئی سی سی،آئی ایم سی ٹی سی وغیرہ اسلامی ممالک کے اتحادوں کا کیا فائدہ اگر یہ سب مل کر بھی ملّتِ اسلامیہ پر مظالم ڈھانے والوں کا ہاتھ نہیں روک سکتے؟
قاہرہ میں منعقد ہونے والی یہ تازہ ترین سربراہی اسلامی کانفرنس ایسے حساس اور پُر آشوب ایام میں معرضِ عمل میں آئی ہے جب مغربی ممالک اور شمالی امریکا کا حمائت یافتہ صہیونی اسرائیل ’’غزہ‘‘ میں 45ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے ، جب پورا غزہ مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے ، جب ’’غزہ‘‘ کے تین ملین فلسطینی اپنے گھروں سے محروم ہو کر کمزور خیموں میں زندگیاں گزارنے پر مجبور بنا دیئے گئے ہیں ، جب اسرائیل اور ایران کی مسلّح مڈبھیڑ ہو چکی ہے ، جب اسرائیل آگے بڑھ کر شکستہ شام کے400مربع کلومیٹر کے علاقے پر فوجی قبضہ کر چکا ہے ، جب اسرائیل اپنی بالادست فوجی طاقت سے شام کے سب سے اونچے پہاڑ’’کوہِ ہرمن‘‘ پر قابض ہو چکا ہے۔
جب شام میں الاسد خاندان اور ’’بعث‘‘ پارٹی کے پچاس سالہ اقتدار کا محل مسمار ہو چکا ہے ، جب شام کا آخری حکمران شکست خوردگی کی حالت میں ملک سے فرار ہو کر رُوس میں پناہ لے چکا ہے ، جب اسرائیل لبنان کی حزب اللہ کو پسپااور حزب اللہ کے تین بڑے لیڈروں کو شہید کر چکا ہے ، جب شام سے رُوس، ایران ، حزب اللہ اور لبنان کا بوریا بستر گول ہو چکا ہے، جب ’’غزہ‘‘ کے لاتعداد فلسطینی لُٹ پِٹ کر ہمسایہ مصر میں پناہ گیر ہو چکے ہیں۔
شام کے تازہ سیاسی و معاشی اور جغرافیائی بحران نے سارے مشرقِ وسطیٰ کو ہلا کررکھ دیا ہے ۔ عالمی اور مغربی طاقتیں شام کو گدھوں کی طرح گرسنہ اور بھوکی نظروں سے دیکھ رہی ہیں ۔ ایسے بحرانی ایام میں ڈی ایٹ کی سربراہی کانفرنس میں شریک ہو کو جناب شہباز شریف پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے کیا مفادات حاصل کر سکیں گے ؟ کیا اِس سربراہی کانفرنس کا مقصد محض نشستند، گفتند ، برخاستند رہ جائیگا؟ یہ نہائت مشکل سوال ہے ۔
قاہرہ مشرقِ وسطی کے بحرانی مرکز، دمشق، سے زیادہ دُور نہیں ہے ۔اور دمشق بری طرح ڈانواں ڈول ہے ۔ سرکاری طور پر ڈی ایٹ کی تازہ ترین کانفرنس کا ایجنڈا یہ بتایا گیا ہے: رکن ممالک کے نوجوانوں میں سرمایہ کاری کی اہمیت کا اُجاگر کرنا (Underline the importance of investing in youth ) اور رکن ممالک میں SMEs(Small and medium Enterprises)کی بڑھوتری ۔اگر دونوں مذکورہ پوائنٹس کے حوالے سے پاکستان ہی کا جائزہ لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب شہباز شریف نے اپنی 24ماہانہ حکومت کے دوران مملکتِ خداداد کے نوجوان طبقات کی مالی و معاشی حالت کی بڑھوتری کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ سوال کا جواب خاصا پریشان کن ہے ۔ پاکستان میں تو بڑی بڑی صنعتیں بمشکل Surviveکررہی ہیں ۔ اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کی جانب کون اور کیسے متوجہ ہوگا؟
ڈی 8کے تمام رکن ممالک میں پاکستان کو یہ ممتاز، منفرد اور مثالی مقام حاصل ہے کہ پاکستان واحد اسلامی جوہری مملکت ہے ۔ ایران بھی یہ مقام حاصل کرنے کی تگ ودَو میں ہے لیکن وہ ابھی رہگزر میں ہے۔ڈی 8کے اتحاد کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ آٹھوں ممالک اتحاد واتفاق سے ، خصوصی طور پر، اپنی معیشت اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے مستقبل کو محفوظ اور مضبوط بنائیں ۔ اِس تنظیم کی تشکیل کے ڈھائی عشرے گزرنے کے بعد سوال کیا جا سکتا ہے کہ آیا سنجیدگی سے باہمی کوششیں کرکے یہ منزل حاصل کرنے کی کوئی بڑی کوشش کی گئی ہے ؟ جواب کوئی تشفی آمیز نہیں ہے ۔ بانی پی ٹی آئی کے دَور میں تو یہ ڈی ایٹ میں شامل تین ممالک ( پاکستان ، ملائشیا اور ترکیے)تھے جنھوں نے باہم مل کر ، OICکے بالمقابل، اپنا علیحدہ بلاک بنانے کی کوشش کی ۔ یہ الگ بات ہے کہ بوجوہ یہ بلاک معرضِ عمل میں نہ آسکا۔
ڈی ایٹ کی11ویں سربراہی کانفرنس میں شریک ہونے سے قبل انڈونیشیا کے صدر ، پرابوو سوبیانتو، نے انڈونیشیا کے سب سے بڑے اخبار The Jakarta Postکو جو انٹرویو دیا ہے، اس میں صدر موصوف نے بالتفصیل ڈی ایٹ کانفرنس میں انڈونیشیا کی شرکت کے مقاصد بیان کر دیئے ہیں ۔ ہم پاکستانیوں کا مگر مقدر ہے کہ ہمارے وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے قاہرہ روانگی سے قبل ایسا کوئی انٹرویو پاکستان کے کسی اخبار یا الیکٹرانک میڈیا کو نہیں دیا ہے۔
پاکستانیوں کی بدقسمتی ہے کہ مقتدر پارٹی کے مرکزی صدر، جناب نواز شریف، پاکستانی میڈیا سے بات کرکے اپنے دل کی بات کہنے پر تیار ہیں نہ مقتدر جماعت کے وزیر اعظم۔ البتہ نوازشریف بھارت سے آئی خاتون صحافی، برکھا دَت، سے دل کی باتیں کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں ۔
اِس پس منظر میں بس ’’ٹیوے‘‘ ہی لگائے جا سکتے ہیں کہ جناب شہباز شریف کے قاہرہ سربراہی کانفرنس میں شرکت سے پاکستان اور پاکستانیوں کو کیا فائدے حاصل ہوں گے ؟ ہم تو ایسے میں دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ڈی ایٹ کی اِس سربراہی کانفرنس سے مصر کے مطلق حکمران ، صدر عبدالفتاح السیسی ، اپنے آٹھ اسلامی سربراہی دوستوں کے تعاون و اتحاد سے اگر شام اور غزہ کے خونی بحرانوں کا خاتمہ کر سکیں تو یہ ڈی ایٹ کی بڑی کامیابی ہوگی ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس