ابھی چار دِن ہی گزرے ہیں جب 16 دسمبر 1971 کے سانحے کی یادیں سینے کو چھلنی کر گئیں۔ سانحہ بھی تو قیامت خیز تھا۔ پوری اسلامی تاریخ میں یہ سانحہ کسی بھی اعتبار سے ’سانحۂ بغداد اَور سانحۂ غرناطہ‘ سے کم نہیں تھا۔ نئی نسل اِسے تقریباً بھول چکی ہے اور جن کے کرتوتوں سے یہ حشر برپا ہوا تھا، وہ دَادِ عیش دے رہے ہیں اور اِقتدار کا کھیل کھیلنے میں بدمست ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اِس جانکاہ مرحلے سے کوئی سبق سیکھتے اور ماضی کی غلطیوں سے بچنے کا پختہ عہد کرتے، مگر ہوا یہ کہ ہم نے اِسے یکسر فراموش کر دیا۔ اِس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ہماری یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں نے اِتنے بڑے سانحے کے اسباب معلوم کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اِس ضمن میں سب سے بڑی ذمےداری پنجاب یونیورسٹی پر عائد ہوتی تھی کہ وہ مغربی پاکستان کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت مَیں اِس یونیورسٹی کا سب سے کم سن طالبِ علم رہا۔ مَیں نے مارچ 1947 میں پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان دیا۔ یہ ایک بہت بڑا تاریخی اتفاق تھا کہ 3جون 1947کی صبح گورنمنٹ ہائی اسکول سرسہ کا نتیجہ سنایا گیا جس میں پورے اسکول میں ہندوؤں کے مقابلے میں میری پہلی پوزیشن آئی۔ پھر اُسی شام وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائدِ اعظم محمد علی جناح، انڈین کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو اَور سکھوں کے لیڈر بلدیو سنگھ کی موجودگی میں تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کا اعلان کیا۔ یہ اعلان سیاسی مفاہمت کا ایک شاہکار تھا۔ برطانوی حکومت نے پنجاب یونیورسٹی 1882 میں قائم کی اور جب پاکستان وجود میں آیا، تو اُس کے حصّے میں دو یونیورسٹیاں آئیں۔ ایک پنجاب یونیورسٹی اور دُوسری ڈھاکہ یونیورسٹی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کیلئے نواب سلیم اللہ بہادر نے 1906 میں زمین وقف کی اور یہ شرط عائد کی کہ اِس میں اسلامی علوم پڑھائے جائیں گے۔ وہ 1920میں قائم ہوئی۔ اُس وقت مسلم بنگالیوں میں اعلیٰ تعلیم کی شرح بہت کم تھی، اِس لیے شعبوں کی سربراہی ہندو پروفیسروں کے ہاتھ میں آئی۔ یہ ستم بھی سالہا سال ہوتا رہا کہ اسلامی علوم بھی ہندو اَساتذہ ہی پڑھاتے تھے جنہوں نے یونیورسٹی کا کلچر یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ آگے چل کر وہ تعلیمی درس گاہ پاکستان کے مخالف دانش وروں کی آماجگاہ بن گئی۔ ڈھاکہ نے اچھے مسلم محقق بھی پیدا کیے جنہوں نے اسلامی تہذیب و ثقافت کی مایہ ناز خدمت انجام دی، مگر یونیورسٹی میں زیادہ اَثر و رُسوخ ہندو بنگالیوں کا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد مسٹر بھٹو سیاہ و سپید کے مالک بن گئے۔ اُنہوں نے قوم کو بعض تنازعات میں اِس طرح الجھایا کہ اتنے بڑے سانحے پر کسی عظیم ادارے نے تحقیق ہی نہیں کی اور معاملات کی تہ تک پہنچنے کا کسی کو بھی حوصلہ نہیں ہوا۔ چند قابلِ قدر مصنّفین نے اپنی ذاتی کوششوں سے کتابیں تحریر کیں، مگر اُنہیں بھی اربابِ اقتدار کی طرف سے قرار وَاقعی پذیرائی نہیں ملی۔ خاکسار نے سالہاسال کی ریاضت سے ’’مشرقی پاکستان۔ ایک ٹوٹا ہوا تارا‘‘ تحریر کی۔ اِس کی خوبی یہ ہے کہ تمام واقعات مشرقی پاکستان میں جا کر پوری تحقیق کے بعد لکھے گئے اور ساتھ ساتھ شائع بھی کیے جاتے رہے۔ اِس عدم توجہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کے بجائے قوم اِدھر اُدھر بھٹک رہی ہے۔ پچھلے دنوں پنجاب یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر جناب محمد علی مقرر ہوئے۔ چند ہی ماہ پہلے اِس خاکسار اَور پنجاب یونیورسٹی لا کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ نے ’’مَیں نے آئین بنتے دیکھا‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان ایک عہدساز سیاسی اور آئینی جدوجہد اور قائدِ اعظم کی بے مثال قیادت میں معرضِ وجود میں آیا ہے۔ ہم دونوں یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر کی خدمت میں یہ کتاب لے کر حاضر ہوئے۔ وہ بنیادی طور پر سائنسی علوم کے استاد اَور ایک قابلِ قدر سائنس دان ہیں، تاہم اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ اُنہیں فلسفے، تاریخ اور اَدبیات میں بھی دلچسپی ہے۔ اُن کی گفتگو اور اُن کی نشست و برخاست سے ہم دونوں نے محسوس کیا کہ وہ منجمد رہنے کے بجائے کوئی بڑا کام کرنے کی اُمنگ رکھتے ہیں۔ ہم اپنی کتاب دے کر چلے آئے۔ اُنہوں نے وعدہ کیا کہ اِسے پڑھنے کے بعد اِس کے بارے میں آپ سے بات کروں گا۔ ایک ہفتے بعد مَیں نے فون کیا، تو اُنہوں نے بتایا کہ مَیں نے پوری کتاب پڑھ لی ہے اور وُہ بہت دلچسپ ہے۔ میرا ایک عزیز ارسلان جو یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے، پچھلے ہفتے اُس نے مجھے بتایا کہ ہمارے نئے وائس چانسلر نے اکیڈمک اسٹاف کے صدر ڈاکٹر امجد مگسی کے مطالبے پرشعبوں اور فیکلٹیوں میں ایسی اصلاحات نافذ کی ہیں جن سے بیشتر اساتذہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مَیں نے ڈاکٹر امجد مگسی سے رابطہ قائم کیا کیونکہ اُنکے ساتھ بہت پرانے مراسم ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ وائس چانسلر صاحب نے تین مہینوں کے اندر یونیورسٹی کے معاملات کو معیاری بنانے کیلئے بڑے بڑے اقدامات کیے ہیں۔ 1982تک شعبوں میں روٹیشن کا نظام قائم تھا۔ ہر شعبے کا سربراہ ہر تین سال بعد اپنا منصب چھوڑ دیتا اور اُس کی جگہ دوسرا سینئر پروفیسر لے لیتا۔ اِس طرح تمام پروفیسروں کو سربراہی کا موقع بھی مل جاتا اور اُن کے تجربات میں اضافہ بھی ہوتا رہتا۔ روٹیشن کا نظام ختم ہو جانے سے اب ایک ہی شخص آٹھ دس برسوں تک سربراہی کے فرائض انجام دیتا ہے۔ اب طے ہوا ہے کہ تین سال بعد ہر شعبے کا سربراہ تبدیل ہو جائے گا اور ایک شخص ایک وقت میں اپنے پاس صرف ایک عہدہ رَکھ سکے گا۔ وائس چانسلر صاحب نے وہ مراکز بھی بند کر دیے ہیں جو غیرفعال چلے آ رہے تھے۔ ہم اُمید کر سکتے ہیں کہ جناب محمد علی شام کی کلاسیں شروع کرنے پر بھی غور کریں گے جس سے یونیورسٹی کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا اور مڈل کلاس کے طلبہ کیلئے بھی اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن ہو جائے گا، کیونکہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے اخراجات ناقابلِ برداشت ہوتے جا رہے ہیں۔ آج سب سے بڑی ضرورت یونیورسٹیوں کو تحقیق اور جدت طرازی کی آماجگاہ بنانا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ