ٹرمپ بھی پاکستان کا ہرگز دوست نہیں…نصرت جاوید


جمعرات کی صبح چھپے کالم میں عاجزی سے آپ کو خبردار کرنے کی کوشش کی تھی کہ فی الوقت اس بحث میں وقت ضائع نہ کریں کہ 20جنوری 2025ء کے بعد اقتدار سنبھالنے والی ’’ٹرمپ انتظامیہ‘‘ پاکستان کے ساتھ کیا رویہ اپنائے گی۔ غور طلب حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ تاریخ تک فیصلہ سازی ’’بائیڈن انتظامیہ‘‘ ہی کا اختیار ہے۔ خدانخواستہ اس تاریخ سے قبل امریکہ کو کسی ملک کے خلاف ایٹمی ہتھیار بھی چلانا پڑا تو اس ضمن میں حتمی فیصلہ لینے کا اختیار صدر بائیڈن کے پاس ہی رہے گا۔ میری بدقسمتی کہ ’’بائیڈن انتظامیہ‘‘ نے یہ کالم چھپنے سے چند گھنٹے قبل پاکستان کے خلاف اپنی مخاصمت کا اظہار کردیا۔ ہمارے ملک کے چند تجارتی اداروں کے نام لیتے ہوئے انہیں ’’بلیک لسٹ‘‘ کردیا۔ ان کے خلاف الزام ہے کہ وہ پاکستان کے دورمار میزائلوں کی استعداد وکارکردگی کو جدید تر بنانے کے لئے بین الاقوامی منڈی سے مطلوبہ ٹیکنالوجی کی تلاش میں سرگرم رہتی تھیں۔ 
بدھ کو رات گئے ان پابندیوں کا اعلان ہوا تو نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار جو ہمارے وزیر خارجہ بھی ہیں کی جانب سے اب ایکس کہلاتے ٹویٹر پر ایک بیان نمودار ہوا۔ اس بیان کے ذکر سے قبل نہ چاہتے ہوئے بھی یاددلانا چاہوں گا کہ بدھ کی دوپہر ہی ڈار صاحب کی جماعت اور کابینہ کی ساتھی محترمہ شزا فاطمہ صاحبہ نے بطور وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی بیان دیاتھا کہ Xنامی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسے پاکستان میں محض 2فی صد افراد دیکھتے ہیں۔اس پلیٹ فارم تک رسائی موجودہ حکومت نے ناممکن بنادی ہے کیونکہ اس کی دانست میں وہاں پاکستان کے ’’سیکورٹی مفادات‘‘ کے خلاف مواد کی بھرمار ہوتی ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم نے تاہم بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو اپ ڈیٹ رکھنے میں معاونت فراہم کرنے والے تجارتی اداروں کے خلاف لگائی امریکی پابندیوں کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار اسی پلیٹ فارم(X)پر کیا جس تک رسائی پاکستان میں قومی سلامتی کے نام پر تقریباََ ناممکن بنادی گئی ہے۔
بارہا اس کالم میں تواتر سے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جوبائیڈن پاکستان سے ہمیشہ شاکی رہا ہے۔30سے زیادہ برسوں تک وہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر نگاہ رکھنے والی سینٹ کی کمیٹی کا طاقتور اور تجربہ کار سربراہ رہا ہے۔ اس حیثیت میں مصر رہا کہ پاکستان کے عسکری ادارے امریکہ کے حقیقی دوست نہیں۔ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کے ’’حلیف‘‘ ہونے کے باوجود طالبان کے چند گروہوں کو زندہ بھی رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی شدید خواہش رہی کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کو عسکری قیادت پر ’’کنٹرول‘‘ حاصل کرنے کے قابل بنایا جائے۔ اسی خواہش کے تحت اس نے ری پبلکن پارٹی کے ایک سینیٹر کے ساتھ مل کر ایک قانون تیار کرنا شروع کیا جو اس امر کو یقینی بنانا چاہتا تھا کہ امریکی امداد منتخب سیاسی قیادت کے ہاتھوں پاکستان کے دفاعی اداروں تک پہنچے۔ بعدازاں وہ اوبامہ کا نائب صدر بن گیا تو یہ فریضہ ڈیموکریٹ پارٹی کے سینیٹر جان کیری کے سپرد ہوگیا۔ بالآخر جو قانون تیار ہوا اسے ’’کیری لوگربل‘‘ پکارا جاتا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی دسمبر2007ء میں شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی جو حکومت قائم ہوئی تھی اس کے دوران یہ قانون لاگو ہونے لگا تو ہمارے عسکری اداروں کے دباؤ پر ان دنوں کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واشنگٹن گئے۔ وہاں بہت ترلے منتوں کے بعد وہ ایسی ترامیم کروانے کے قابل ہوئے جو عسکری اداروں کی تشویش دور تو نہ کرسکیں مگر انہیں کم کرنے میں مددگار ضرورت ثابت ہوئیں۔ مذکورہ بل کی بدولت مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف عسکری قیادت کے دل میں بال آگیا۔ اس کا انجام ہمیں یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے عہدے سے چیف جسٹس کے ہاتھوں فراغت کی صورت دیکھنے کو ملا۔
جوبائیڈن کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ بطور نائب صدر امریکہ وہ اپنے صدر کو مجبور کرتا رہا کہ افغانستان میں کارروائیوں پر توانائی ضائع کرنے کے بجائے پاکستان میں ’’دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں‘‘ پر ڈرون حملے کئے جائیں۔ اس کی دانست میں افغانستان میں دہشت گردی کی جڑیں ’’پاکستان کے قبائلی علاقے‘‘ تھے۔ماضی کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں نے جو وحشت پھیلائی جوبائیڈن کی سوچ اس کی کلیدی ذمہ دار تھی۔ اس سوچ کی بدولت بائیڈن عمران حکومت سے فاصلے پررہا کیونکہ عمران خان ڈرون حملوں کے شدید مخالف رہے تھے۔ عمران حکومت سے دوری کے باوجود اس نے شہباز حکومت کو بھی اپنا حلیف کبھی تصور نہیں کیا۔ اس پر ’’رجیم چینج‘‘ کا الزام تحریک انصاف کے حامی تواتر سے لگاتے رہے ہیں۔ عمران حکومت کی جگہ سنبھالنے والی شہباز حکومت کو بھی لیکن بائیڈن انتظامیہ نے جپھیاں نہیں ڈالیں۔ فاصلے پر رکھا اور اب اقتدار چھوڑنے سے چند ہی ہفتے قبل بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو جدید ترین بنانے میں معاونت فراہم کرنے والے تجارتی اداروں پر پابندیاں لگادی ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ 20جنوری 2025ء￿  کو ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس پہنچ جانے کے بعد یہ پابندیاں واپس لے لی جائیں گی؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ میرے ساتھ کج بحثی میں الجھاگیا تو یہ کہنے کو مجبور ہوں گا کہ اگر رچرڈ گرنیل کی خواہش کے مطابق عمران خان کو رہا کرنے کے بعد جلد از جلد کروائے انتخابات کی بدولت بانی تحریک انصاف کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر تاریخی اکثریت کے ساتھ واپس بھی لے آیا جائے تب بھی بدھ کی رات لگائی پابندیاں واپس نہیں ہوں گی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ کی کسی بھی جماعت کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ اقتدار میں باریاں لینے والی دونوں جما عتیں بلکہ شدت سے یہ سوچتی ہیں کہ پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام ذریعے دیگر اسلامی ممالک کو اْکسایا کہ وہ بھی اپنے تحفظ کے لئے اس مہلک ترین ہتھیار کو تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کریں۔ اس ضمن میں ایران کا خصوصاََ ذکر ہوتا ہے۔ لیبیا کے کرنل قذافی پر الزام تھا کہ اس نے اپنے لئے پاکستان سے ایٹم بم بنانے کی صلاحیت ’’خریدی‘‘ ہے۔ قذافی نے خود پر لگے الزام کو تسلیم کرلیا اور مبینہ طورپر ’’پاکستان سے ملا‘‘ سامان بھی امریکہ کے حوالے کردیا۔ اس کے باوجود اسے معافی کا مستحق نہیں گردانا گیا۔ مختصر ترین الفاظ میں آپ کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ اسے کمزور سے کمزور تر ہوتا دیکھنا چاہتا ہے اور ٹرمپ بھی اس تناظر میں پاکستان کا ہرگز ’’دوست‘‘ نہیں ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت