قومی تعلیمی ڈویلپمنٹ فریم ورک 2024، تعلیمی ایمرجنسی کے مراحل کے طور پر عملدرآمد کو تیز کرنے کی ضرورت ہے،ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی


 اسلام آباد(صبا ح نیوز)وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے قومی تعلیمی ڈویلپمنٹ فریم ورک 2024کو ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس پر فوری عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر نوجوان نسل کو تیار نہ کیا گیا تو مصنوعی ذہانت ایک ارب افراد کو غیرمتعلق کر سکتی ہے۔

ان خیالات کااظہارپیر کے روز وفاقی وزارت تعلیم اور صوبائی تعلیمی محکموں کے اشتراک سے تیار کردہ فریم ورک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب میں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے تعلیم فرح ناز، وفاقی سیکرٹری تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت محی الدین وانی، صوبائی تعلیمی افسران، اور ترقیاتی شعبے کے نمائندے بھی موجود تھے۔وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے پاکستان میں ذریعہ تعلیم کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مادری زبان، قومی زبان یا عالمی زبانوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے مصنوعی ذہانت، انجینئرنگ، ریاضی، اور آئی ٹی کی تعلیم کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ حقیقت کو نظر انداز کرنا یا سچائی سے منہ موڑنا کسی بھی حقیقی ترقی کا سبب نہیں بنے گا۔وزیر تعلیم نے 1951 سے اب تک بننے والی متعدد پالیسیوں، فریم ورکس، اور روڈ میپس کے باوجود عمل درآمد کے فقدان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ 18ویں ترمیم کے بعد وزارت تعلیم پالیسی سازی پر توجہ دے رہی ہے جبکہ عمل درآمد صوبوں کی ذمہ داری ہے۔

اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عمل درآمد کیوں ناکام ہو رہا ہے۔ انہوں نے 26 ملین سے زائد بچوں کے اسکول سے باہر ہونے، اساتذہ کی کمی، اور آبادی کے مسائل جیسے چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے اجتماعی حل کی اپیل کی۔انہوں نے چین اور بھارت کے ساتھ تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ جہاں گزشتہ دو دہائیوں میں بالترتیب 50 کروڑ اور 15 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا گیا۔ انہوں نے پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کو غربت کی جڑ قرار دیتے ہوئے اسے ایک بڑی رکاوٹ بتایا۔ انہوں نے 1972 میں تعلیم کو قومیانے کے بجائے “جاگیردارانہ” بنانے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور پوچھا کہ “گھوسٹ اسکولز” کیوں موجود ہیں جبکہ نئے اسکول کھولنا مشکل ہے۔

وفاقی سیکرٹری تعلیم محی الدین احمد وانی نے فریم ورک کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک جامع دستاویز ہے، جو ماہرین اور صوبائی نمائندوں کی مشاورت سے تیار کی گئی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے تعلیمی شعبے میں مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے اسکول کی تعلیم، غیر رسمی تعلیم، بالغ خواندگی، اعلی تعلیم، اور تکنیکی و پیشہ ورانہ تربیت کو فریم ورک کا حصہ بتایا۔فریم ورک میں رسائی، معیار، اور مساوات کے مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے اور مارکیٹ سے ہم آہنگ تکنیکی تعلیم اور متنوع کیریئر راستوں پر زور دیا گیا ہے۔ پاکستان کی کمزور درجہ بندی  193 ممالک میں 164ویں نمبر  اور صرف 62 فیصد خواندگی کی شرح کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے بنیادی مہارتوں، اعلی تعلیم تک رسائی (صرف 12 فیصد)، اور مارکیٹ کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگی میں شدید کمی کو اجاگر کیا۔ وسائل کی کمی اور پاکستان کی تنوع سے پیدا ہونے والے چیلنجز پالیسی کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن ڈاکٹر محمد شاہد سرویا نے شرکا کو پریزنٹیشن کے ذریعے قومی تعلیمی ڈویلپمنٹ فریم ورک 2024کے خدوخال کے حوالے سے آگاہ کیا۔وزیرتعلیم بلوچستان راحیلہ درانی نے ایک ویڈیو پیغام میں ایک دوسرے سے سیکھنے اور تعلیم کو اولین ترجیحات میں رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بلوچستان میں اساتذہ کی کمی اور تعلیمی سہولیات کی کمی جیسے چیلنجز کو حل کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی ہم منصبوں کو مل کر کام کرنے کی دعوت دی۔

پنجاب کے اسپیشل سیکرٹری برائے اسکولز محمد اقبال نے فریم ورک پر عمل درآمد اور بھرتیوں و تبادلوں کے لیے ڈیجیٹل حل پر پیش رفت سے آگاہ کیا ۔ انہوں نے پنجاب نے تین ماہ کے اندر اپنے تعلیمی شعبے کے منصوبے کو قومی فریم ورک کے ساتھ ہم آہنگ کرنے اور اسکول کونسلز کو مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کیا۔سندھ کے اسپیشل سیکرٹری برائے تعلیم سید جنید نے اسکول اپگریڈیشن، ابتدائی بچپن کی تعلیم، خواجہ سراں کی پالیسیوں، اور اسکول سے باہر بچوں کی بحالی کے اقدامات کا ذکر کیا۔سیکرٹری مسعود احمد نے تعلیم پر دہشت گردی، انتہا پسندی، اور قدرتی آفات کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے اور فریم ورک کو پالیسی اصلاحات اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے کے لیے استعمال کرے گی۔

تقریب میں تعلیمی اصلاحات کے لیے اجتماعی عزم کا اظہار کیا گیا اور صوبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا تاکہ چیلنجز پر قابو پایا جا سکے اور پائیدار ترقی کے اہداف(ایس ڈی جیز-فور)کے ساتھ ہم آہنگی حاصل کی جا سکے۔