بنیادی انسانی حقوق اور مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے باہمی عوامی اتحاد نہایت ضروری عنصر ہے ۔ جو کہ بڑی سے بڑی طاقت سے بھی ٹکرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب قوم کسی ایک نکتہ نظر پر متحد ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کی آواز کو دبا نہیں سکتی۔ بنیادی سہولیات سے محروم مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی کشمیری قوم کو اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم اور باہمی اتحاد کی اشد ضرورت تھی۔ جہاں پوری قوم سیاسی ، سماجی اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر اپنے حقوق کے حصول کے لئے نہ صرف آواز اٹھائے بلکہ عملی میدان میں بھی عوامی طاقت کا لوہا منوائے۔ عوامی ایکشن کمیٹی آزاد کشمیر نے قوم کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا اور عوامی حقوق کی صدا بلند کی۔ جب ڈڈیال سے لے کر مظفرآباد تک ایک ہی آواز بلند ہوئی تو ابتدائی مراحل میں عوام کو سستے آٹے اور تین روپے فی یونٹ کے حساب سے سستی بجلی کی سہولت میسر ہوئی ۔ اس وقت بھی صدارتی آرڈیننس کے خاتمے اور دیگر مطالبات کے لئے عوامی ایکشن کمیٹی کا احتجاج جاری ہے۔ پہلے پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ، اور اب اگلے مرحلے میں تمام انٹری پوائنٹس کی طرف لانگ مارچ کا علان کیا گیا ہے۔ اس وقت عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ عوامی ایکشن کمیٹی اور عوامی اتحاد پالیسی سازوں کے لئے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسی خطرے کے پیش نظر اپیکس کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں وفاقی وزارت داخلہ میں اعلی سطحی اجلاس منعقد ہوا ۔ اجلاس میں آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے جاری مسلسل مظاہروں اور ہڑتالوں سے نمٹنے میں آزاد حکومت کی ناکامی پر فیصلہ کیا گیا کہ آزاد کشمیر میں دہشت گردی اور امن و عامہ تباہ کرنے والوں سے نمٹنے کے لئے انسداد دہشتگردی فورس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ انسداد دہشتگری فورس میں غیر ریاستی افراد اور ریٹائڑد فوجیوں کو ترجیحی بنیادوں پر بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ احتجاجی مظاہروں سے نمٹنے کے لیے وفاق سے فورس منگوائے بغیر ہی غیر ریاستی افراد پر مشتمل کوئی فورس آزاد کشمیر میں دستیاب ہو جو مظاہرین سے بہتر طریقے سے نمٹ سکے۔
دوسری طرف حال ہی میں محمکہ پولیس میں کافی تعداد میں غیر ریاستی افراد کے بطور کانسٹیبل بھرتی ہونے کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں۔ چونکہ آزاد کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور ایک متنازعہ ریاست کے کسی محمکے میں غیر ریاستی افراد کی ترجیحی بنیادوں پر بھرتی کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ آزاد کشمیر کے اندر اس طرح کے اقدامات اس خطرے کی طرف واضح اشارہ کر رہے ہیں کہ کہیں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی طرح آزاد کشمیر کا سوشل سٹیٹس تبدیل کرنے کی کوششیں تو نہیں کی جا رہیں؟ جس طرح ہندوستان کی طرف سے آرٹیکل 370 اور 35A کے خاتمے کے بعد بڑی تعداد میں غیر ریاستی ہندوؤں کو کشمیر میں بسا کر کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جس سے ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کا سوشل سٹیٹس بلکل بدل کر رہ جائے گا۔ اور کشمیریوں کی تحریک آزادی خود بخود دم توڑ دے گی۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ اگر آزاد کشمیر کا سٹیٹس تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو کیا کشمیری اس فیصلے کو قبول کر لیں گے؟ اور اس طرح کے اقدامات سے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
کشمیر کی آزادی کے حوالے سے کشمیریوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے ہر ذی شعور انسان اس کا ادراک کر سکتا ہے کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ کشمیریوں کے لئے ہر گز قابل قبول نہیں ہو گا۔ علامہ اقبال نے قوم کو کیا خوبصورت درس دیا کہ:
نہیں یہ شان خودداری ، چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے ، کوئی زیب گلو کر لے
یہ ریاست کسی شاخ پر لگا کوئی پھول نہیں ہے جسے شاخ سے توڑ کر کوئی اپنی دستار کی زینت بنا دے اور کوئی اپنے گلے کے ہار میں سجا لے۔ اس خطے کے لاکھوں لوگوں نے آزادی کے حصول کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ اس قوم کے بچے، بوڑھے ، جوان ، مرد اور خواتین بھارتی فورسز کے جبر کے آگے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے رہے مگر اپنی ریاست کی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہزاروں ماؤں کی گودیں اجڑیں مگر زبان آزادی کی صدائیں ہی بلند کرتی رہی۔ کئی سہاگ اجڑے ، کئی بچے یتیم ہو گئے ، معصوم بچے پیلٹ گن کی زد میں آگئے، مگر اس قوم کا عزم متزلزل نہیں ہوا ۔ اور کسی نے اس ریاست کی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ لائن آف کنٹرول کے آر پار کشمیری اس آس پر منتظر بیٹھے ہیں کہ کبھی تو ان کے بیچ سے تقسیم کی یہ لکیر ختم ہو گی اور وہ اپنے پیاروں سے ملیں گے اور اپنی ریاست میں آزادانہ گھومیں گے۔
اتنی قربانیوں کے بعد اگر ایسے غیر دانشمندانہ اقدامات اٹھائے جاتے ہیں تو یہ تذلیل ہوگی تحریک آزادی کشمیر میں اپنی جانیں قربان کرنے والوں کی ، شہدا کے خون کی ، یتیمی کی زندگیاں بسر کرنے والوں کی، پیلٹ گن سے اپنی آنکھوں کی بینائی کھو دینے والے معصوم بچوں کی، صبح آزادی کی منتظر ان آنکھوں کی جو آزادی کا خواب سجائے بیٹھی ہیں۔
کشمیری قوم ہندوستان کو تو اپنا کھلم کھلا دشمن سمجھتی ہے۔ اور ہر وہ شخص جس کی رگوں میں کشمیری خون دوڑتا ہے اس کا دل ہندوستان سے نفرت سے بھرا ہے۔ کشمیریوں نے بھارتی ناجائز قبضے کو نا تو قبول کیا ہے اور نہ ہی قبول کریں گے۔ مگر ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے سے پہلے یہ یاد رکھنا ہو گا کہ کشمیری پاکستان کو نہ صرف اپنا محسن سمجھتے ہیں ، بلکہ ان کے دل پاکستانیوں کے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ لاکھوں کشمیریوں نے کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگا کر اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ اگر ان قربانیوں کا انہیں یہ صلہ دیا جائے کہ بھارت سے مفاہمت کی پالیسی کے تحت کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے جس سے نا صرف کشمیر کا سوشل سٹیٹس ہی بدل کر رہ جائے۔ بلکہ کشمیر کاز کو بھی ختم کر دیا جائے، تو ایسا فیصلہ کشمیری تو قبول نہیں کریں گے۔ بلکہ ایسے اقدامات دلوں میں دوریاں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نفرتوں کے وہ بیج بو دیں گے جن کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایسے اقدامات سے قبل یہ یاد رکھنا ہو گا کہ طاقت کے زور پر نہ تو کسی تحریک کو کمزور کیا جا سکتا ہے اور کہ ہی کسی آواز کو دبایا جا سکتا ہے۔ بلکہ طاقت کا بے جا استعمال بغاوت کو جنم دیتا ہے ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مسئلہ کشمیر پر کئی قراردادیں پاس کیں۔ جن میں سے ایک اہم قراد داد 05 جنوری 1949 کو پاس کی گئی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ “کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے حق دیا جائے گا”۔ کشمیر کے مستقبل کے فیصلے کا حق رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو ہی دینا چاہیے۔ نہ کہ آپس میں مل بانٹ کر اور کشمیریوں کو یکسر نظر انداز کر کے ایسا غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا جائے جو کہ بغاوت کو جنم دے۔ طاقت کے زور پر کسی تحریک کو دبانے کی کوشش کرنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے اور عوام کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ کیونکہ بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
Load/Hide Comments