گہرے سرمئی آسمان اور برف کی ایک پتلی تہہ کے نیچے سرد جنگ کے آثار یوکرین کے سوویت ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔
میزائل، راکٹ لانچر اور ٹرانسپورٹر اس دور کی علامت ہیں جب یوکرین سوویت یونین کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں کلیدی کردار ادا کرتا تھا، یہ پروگرام اس کا آخری دفاع سمجھا جاتا تھا۔
ایک سائلو کے جزوی طور پر اٹھے ہوئے کنکریٹ اور سٹیل کے ڈھکن کے نیچے، ایک بڑے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کی جھلک نظر آتی ہے۔
مگر یہ میزائل اصلی نہیں ہے بلکہ اس کی ایک ٹوٹی پھوٹی نقل ہے۔ یہ سائلو تقریباً 30 سالوں سے ملبے سے بھرا ہوا ہے۔
یہ پورا اڈا جو یوکرین کے مرکزی شہر پریومائسک کے قریب واقع ہے، بہت پہلے ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
1990 کی دہائی کے اوائل میں جب سوویت یونین کے بکھرنے پر یوکرین ایک آزاد ملک کے طور پر ابھرا تو اس نے جوہری ہتھیاروں کو خیرباد کہہ دیا۔
لیکن روس کی یلغار کے تقریباً تین سال بعد اب بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایک غلطی تھی۔
تیس برس پہلے 5 دسمبر 1994 کو ہنگری کے دارالحکومت بداپسٹ میں ایک تقریب میں یوکرین، بیلاروس اور قزاقستان نے اپنے جوہری ہتھیار ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ بدلے میں اسے امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کی جانب سے سکیورٹی کی ضمانتیں دی گئیں۔
سوویت یونین کے جوہری ذخائر کا ایک تہائی حصہ یوکرینی زمین پر واقع تھا اور ان ہتھیاروں کی تلفی کا فیصلہ اہم تھا جسے عالمی سطح پر پسند کیا گیا۔
امریکی صدر بل کلنٹن نے اس موقع پر کہا کہ ’جو سکیورٹی کی یقین دہانیاں ہم نے ان تین ملکوں (یوکرین، بیلاروس، قزاقستان) کو دی ہیں وہ ان کی ریاستوں کی خودمختاری علاقائی سالمیت اور آزادی کے لیے ہمارے عزم کو اجاگر کرتی ہیں۔‘
خارخیو کی ایک فوجی اکیڈمی سے فارغ التحصیل اولیکسانڈر سوشچینکو دو سال بعد پریومائسک پہنچے جب ڈی کمیشننگ کا عمل شروع ہو رہا تھا۔
انھوں نے دیکھا کہ میزائلوں کو ہٹایا جا رہا ہے اور سائلو اڑائے جا رہے ہیں۔ اب وہ دوبارہ اسی بیس پر ایک میوزیم کیوریٹر کے طور پر واپس آ چکے ہیں۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
روس کی طرف سے یوکرین کو ایک دہائی سے دی گئی تکالیف جسے روکنے میں عالمی برادری ناکامی یا عدم دلچسپی کے بعد ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔
اولیکسانڈر سوشچینکو کہتے ہیں کہ ’جو کچھ اب یوکرین میں ہو رہا ہے، میرے ذاتی خیال میں یہ غلطی تھی کہ ہم نے جوہری ہتھیار مکمل طور پر تباہ کر دیے لیکن یہ ایک سیاسی مسئلہ تھا۔ اعلیٰ قیادت نے فیصلہ کیا اور ہم نے بس احکام پر عمل کیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت جوہری ہتھیاروں کو تلف کرنے کا فیصلہ قابل فہم تھا۔ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ روس 20 سال کے بعد یوکرین پر حملہ کرے گا۔
سنہ 1994 میں برطانیہ میں یوکرین کے سفیر سرگی کمیسارینکو کہتے ہیں: ’ہم نادان تھے جو اعتبار کر گئے۔‘
وہ کہتے ہیں: ’جب برطانیہ، امریکہ، روس اور فرانس شامل ہوئے تو ہم سوچ رہے تھے کہ بس اتنا کافی ہے۔‘
ایک غریب ملک کے لیے جو دہائیوں بعد سوویت اقتدار سے نکل رہا تھا اس کے لیے جوہری ہتھیاروں کو برقرار رکھنے کا خیال بظاہر غیرمعقول تھا۔
کمیسارینکو کہتے ہیں کہ ’جوہری ہتھیاروں کو بنانے یا رکھنے پر کیوں رقم خرچ کی جائے جب آپ اس کا استعمال صنعت یا خوشحالی کے لیے کر سکتے ہیں۔‘
لیکن 1994 کے اس بدقسمت معاہدے کی سالگرہ کو اب یوکرین ایک نکتہ اٹھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
اس ہفتے برسلز میں نیٹو کے وزیر خارجہ کی میٹنگ میں یوکرین کے وزیر خارجہ اینڈری سیباہ نے ایک سبز فولڈر میں بداپسٹ میمورنڈم کی ایک نقل دکھائی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ دستاویز یوکرین اور ٹرانس اٹلانٹک سکیورٹی کو محفوظ نہیں کر سکی۔ ہمیں ایسی غلطیوں کو دوبارہ دہرانا نہیں چاہیے۔‘
یوکرین کی وزارت خارجہ اس میمورینڈم کو ’سٹریٹجک سکیورٹی کے فیصلوں میں کوتاہ بینی کی یادگار‘ قرار دیتا ہے۔
اب یوکرین اور اس کے اتحادیوں کے لیے سوال یہ ہے کہ یوکرین کی سیکورٹی کو کیسے یقینی بنایا جائے۔
صدر ولادیمیر زیلنسکی کے لیے جواب واضح ہے۔
زیلنسکی نے اتوار کے روز اپنے موقف کو دہرایا: ’ہمارے لیے بہترین سکیورٹی کی ضمانتیں نیٹو کے ساتھ ہیں۔‘
زیلنسکی کی مسلسل تاکید کے باوجود کہ صرف مغربی اتحاد کی رکنیت ہی یوکرین کی بقا کو اس کے بڑے اور لالچی ہمسائے کے خلاف یقینی بنا سکتی ہے، یہ واضح ہے کہ نیٹو کے ارکان ابھی بھی اس معاملے پر تقسیم ہیں۔
کئی نیٹو ارکان کے یوکرین کی ممبرشپ پر اعتراضات کی موجودگی میں اتحاد نے اب تک صرف یہ کہا ہے کہ یوکرین کی ممکنہ رکنیت کا راستہ ’ناقابل واپسی‘ ہے، لیکن یہ کب ہو پائے گا اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہے۔
یوکرین کے اتحادیوں میں ’طاقت کے ذریعے امن‘ کی بات ہو رہی ہے تاکہ یوکرین کو ممکنہ امن مذاکرات سے پہلے، جو اگلے سال ڈونلڈ ٹرمپ کے تحت ہوں گے، مضبوط پوزیشن میں رکھا جا سکے۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک رٹ نے منگل کو کہا کہ یوکرین کو ہماری جتنی زیادہ فوجی مدد ہو گی مذاکرات کی میز پر اس کا ہاتھ اتنا ہی مضبوط ہو گا۔
غیر یقینی کی صورتحال میں کہ ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کے حوالے سے کیا رویہ اختیار کریں گے، امریکہ اور جرمنی یوکرین کو نئے سامان کی بڑی مقدار بھیج رہے ہیں۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ روس یوکرین جنگ پر کیا ردِعمل دیں گے۔
یوکرین میں کچھ لوگ یہ تجویز کر رہے ہیں کہ ایک ایسا ملک جو اپنی حفاظت کے حوالے سے سنجیدہ ہو وہ جوہری ہتھیاروں کو تلف کرنے کا نہیں سوچ سکتا خاص طور پر جب اس کا سب سے اہم اتحادی امریکہ مستقبل قریب میں اس کا ساتھ چھوڑ سکتا ہے۔
پچھلے ماہ حکام نے اس رپورٹ کی تردید کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ یوکرین کی وزارت دفاع میں ایک ایسی تجویز پر غور کیا گیا ہے کہ چند ماہ میں ایک بنیادی سا جوہری ہتھیار تیار کیا جا سکتا ہے۔
سابق نائب وزیر دفاع آلینا فرولووا کہتی ہیں کہ یہ صرف ایک اتفاق نہیں ہے کہ اس بارے میں خبر لیک ہوئی۔ ’یہ واضح طور پر ایک آپشن ہے جو یوکرین میں، ماہرین کے درمیان زیر بحث ہے۔‘
’اگر ہمیں لگے کہ ہمیں کوئی مدد نہیں مل رہی اور ہم یہ جنگ ہار رہے ہیں اور ہمیں اپنے لوگوں کا تحفظ کرنا ہے۔۔۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک آپشن ہو سکتا ہے۔‘
پریومائسک میں جوہری ہتھیاروں کی واپسی کا مستقبل قریب میں مشکل دکھائی دیتی ہے۔
بیس کے صرف ایک 30 میٹر گہرے کمانڈ سائلو کو مکمل طور پر محفوظ رکھا گیا ہے جسے 1979 میں مکمل کیا گیا تھا۔
یہ جو جوہری حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جس میں بھاری سٹیل کے دروازے اور زیر زمین سرنگیں شامل ہیں جو اسے اڈے کے باقی حصوں سے جوڑتی ہیں۔
نیچے ایک چھوٹے سے تنگ کنٹرول روم میں، ایک لفٹ کے ذریعے رسائی ممکن ہے۔ یہاں بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کے لانچ کرنے کے لیے کوڈڈ احکامات وصول کیے جاتے، ڈی کوڈ کیے جاتے، اور عملدرآمد کیا جاتا تھا۔
اولیکسانڈر کہتے ہیں کہ 1990 میں جوہری ہتھیاروں کو ترک کرنا یقیناً سمجھداری کا فیصلہ تھا کیونکہ امریکہ ہمارا دشمن نہیں تھا۔
لیکن یوکرین کے جوہری ہتھیاروں میں کئی طرح کے ٹیکٹیکل ہتھیار بھی شامل تھے جن کی رینج 100 سے 1000 کلومیٹر کے درمیان تھی۔
اولیکسانڈر کہتے ہیں کہ ’جیسا کے ثابت ہوا، کہ دشمن تو بہت قریب تھا۔ ہم کچھ درجن ٹیکٹیکل وار ہیڈز رکھ سکتے تھے۔ وہ ہمارے ملک کی سکیورٹی کی ضمانت ہوتے۔‘
بشکریہ : بی بی سی اردو