ملزمان نام نہاد ”بورڈ آف الیکٹرو ہومیو پیتھک میڈیسن‘‘ (بی ای ایچ ایم) کی طرف سے ”جاری‘‘ کردہ ڈگریاں دیا کرتے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ ان کے پاس سے سینکڑوں درخواستیں، سرٹیفکیٹس اور اسٹامپس ملے ہیں۔
پولیس نے کہا کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ جعلی ڈگری والے تین لوگ ایلوپیتھی پریکٹس چلا رہے ہیں۔ محکمہ ریونیو نے پولیس کے ساتھ مل کر ان کے کلینک پر چھاپہ مارا۔ پوچھ گچھ پر ملزمان نے بی ای ایچ ایم کی طرف سے جاری کردہ ڈگریاں دکھائیں، جنہیں پولیس نے جعلی قرار دیا کیونکہ نہ تو ایسا کوئی سرکاری ادارہ ہے اور نہ ہی گجرات حکومت ایسی کوئی ڈگری جاری کرتی ہے۔
پولیس نے کہا کہ کلیدی ملزم کو پتہ تھا کہ بھارت میں الیکٹرو ہومیو پیتھی کے حوالے سے کوئی ضابطہ نہیں ہے، جس کے بعد اس نے مبینہ کورس میں ڈگریاں دینے کے لیے ایک بورڈ قائم کیا اور دعویٰ کیا کہ بی ای ایچ ایم کا ایک حکومتی ادارے سے الحاق ہے۔
رقم موصول ہونے کے 15 دن کے اندر سرٹیفکیٹ جاری کردیا جاتا تھا۔ ایک سال کے بعد اس کی تجدید کے لیے 5,000 سے 15,000 روپے وصول کیے جاتے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ جو ڈاکٹر تجدید کی فیس ادا نہیں کرتے تھے انہیں گروہ نے دھمکیاں دی تھیں۔
گجرات میں جعلی ڈاکٹروں کی گرفتاری کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ ریاست میں پچھلے چند برسوں کے دوران جعلی اساتذہ، جعلی پولیس اہلکار، جعلی اعلیٰ سرکاری افسر حتیٰ کی جعلی جج پکڑے جا چکے ہیں۔
اکتوبر میں احمد آباد پولیس نے گاندھی نگر میں تقریباً چھ سال سے ”فرضی‘‘ عدالت چلانے والے مورس سیموئیل کرسچن نامی ایک شخص کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس قانون کی مصدقہ ڈگری تک نہیں ہے۔ لیکن اس نے باضابطہ ”عدالت‘‘ قائم کررکھی تھی۔ مورس سیموئیل خود کو جج کے طور پر پیش کرکے دیوانی مقدمات بالخصوص جائیداد کے تنازعات کا فیصلہ سنایا کرتا تھا اور اس کی ‘مناسب فیس‘ وصول کرتا تھا۔
دسمبر 2023 ء میں وانکانیر میں، حکام نے قومی شاہراہ پر ایک ‘سرکاری ٹول پلازہ‘ کا انکشاف کیا تھا۔ موربی اور کچھ ضلع کی بندرگاہوں سے جوڑنے والی سڑک پر یہ جعلی ٹول پلازہ بنایا گیا تھا اور ادھر سے گزرنے والی گاڑیوں سے ٹول وصول کیے جاتے تھے۔
چھوٹا ادے پور کے موداسر قصبے میں ایک فلیٹ سے چلنے والے جعلی آبپاشی کے دفتر کو دیکھ کر حکام حیران رہ گئے تھے۔ یہ دفتر مبینہ طور پر ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر اور دیگر کی قیادت میں حکومت کی تقریباﹰ چالیس کروڑ روپے کی ایک بہبودی اسکیم کی رقم ہڑپ کرنے کے گھپلے کا حصہ تھا۔ یہ گھپلہ اس وقت سامنے آیا جب موجودہ پروجیکٹ ایڈمنسٹریٹر نے 2023-24 کے لیے 3.74 کروڑ روپے کی فنڈنگ کے لیے غیر مجاز آبپاشی پروجیکٹ کی درخواستوں کو دیکھا۔
حکام نے ہمانشو رائے، پردیپ پٹیل، اور ترون بھٹ نامی افراد کو گرفتار کیا تھا، جو خود کو بالترتیب کسٹم افسر، آئی پی ایس افسر اور سی آئی ڈی افسر کے طور پر پیش کرکے لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے۔
احمد آباد کے رہنے والے ایک شخص نے 2023 کے اوائل میں کشمیر کے متعدد دوروں کے دوران کامیابی کے ساتھ خود کو وزیر اعظم کے دفتر(پی ایم او) میں ایک سینئر اہلکار کے طور پر پیش کیا تھا۔
کرن جگدیش بھائی پٹیل نامی شخص نے کشمیر کے دوروں کے دوران اپنی شناخت ایڈیشنل ڈائریکٹر (حکمت عملی اور مہم) اور پی ایم او کے ایک سینئر اہلکار کے طور پر کرائی اور دعویٰ کیا کہ وہ ”اعلیٰ سطح کی میٹنگوں‘‘ کے لیے آئے ہیں۔ انہوں نے تمام ممکنہ سرکاری مراعات اور سہولیات بھی حاصل کیں۔ بعد میں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
حد تو اس وقت ہو گئی جب احمد آباد میں سونے اور چاندی کے ایک تاجر کو بالی ووڈ اداکار انوپم کھیر کی تصویر والے جعلی کرنسی نوٹ استعمال کرکے 1.3 کروڑ روپے کا دھوکہ دے دیا گیا۔ انوپم کھیر نے اس واقعہ پرایک ٹویٹ میں لکھا، ”500 روپے کے نوٹ پر گاندھی جی کی تصویر کی بجائے میری تصویر؟؟؟؟ کچھ بھی ممکن ہے۔‘‘
کانگریس کے رہنما منیش دوشی کا کہنا ہے کہ ایسے جعلی دفاتر، ہسپتال اور ادارے سرکاری افسران اور سیاستدانوں کی ملی بھگت کے بغیر کام نہیں کر سکتے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت گزشتہ دو دہائیوں میں ایک خوشنما تصویر دکھا رہی ہے لیکن پورا نظام اوپر سے نیچے تک تنزلی کا شکار ہے۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں گزشتہ پچیس سال سے زیادہ مدت سے بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں ہے اور وزیر اعظم بننے سے قبل مودی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے.
بشکریہ :ڈی ڈبلیو