اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے سی ڈی اے سے مارگلہ ہلزنیشنل پارک میں غیر قانونی تعمیرات پر مفصل رپورٹ طلب کرلی۔جبکہ بینچ نے اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم زیرالتواکیسز کو جلد سماعت کرکے بند کرنے کی طرف جارہے ہیں، باقی محکمے اپنا کام کریں۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ مونال ریسٹورانٹ کافیصلہ ہو گیا ہے ہم 10قدم آگے آگئے ہیں، مونال ختم ہوگیا ہے،مونال غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا،سی ڈی اے کااس جگہ سے کوئی لینا دینا نہیں ،مارگلہ نیشنل پارک کو اسلام آباد وائلڈ مینجمنٹ بورڈ دیکھ رہا ہے ۔ سی ڈی اے اپنا کام نہیں کرتا کیا ہر معاملے کو ٹھیک کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے 7ججز بیٹھیں گے۔
سپریم کورٹ اور اسلام آباد کی باتیں طے ہوچکی ہیں، ساری رپورٹس آئی ہیں، سی ڈی اے کا اختیار نہیں ہے۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سی ڈی اے پہلے مونال کے اطراف میں غیر قانونی تعمیرات کو دیکھ لے،مارگلہ ہلز اور اطراف سے فارغ ہوکر پھر سپریم کورٹ کودیکھ لے۔کیوں سی ڈی اے نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کیا، تمام تعمیرات غیر قانونی ہیں یہ حکم ہے۔ سارے اسلام آباد کی چیزیں ختم کرنی ہے توکردیں، سپریم کورٹ کوبھی ختم کردیں۔ جبکہ جسٹس سید حسن اظہررضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بڑے ہوٹل بند ہوتے ہیں توپھر کھوکھے ہی کھلتے ہیں۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے ہیں کہ مارگلہ ہلز میں جتنی بربادی خیبر پختونخوا میں ہوئی، ہم سوچ بھی نہیں سکتے، ناران جاکر دیکھیں وہاں کیا حال ہے۔
جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 1960کے نوٹیفیکیشن کے مطابق جہاں ہم بیٹھے ہیں یہ جگہ بھی نیشنل پارک میں شامل ہے توکیا سپریم کورٹ کو بھی گرادیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل پر 6رکنی آئینی بینچ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں غیر قانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت مونال ریسٹورانٹ کے وکیل سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن چوہدری محمد احسن بھون نے عدالت میں کہا کہ عدالت کے حکم پر ہمارا ریسٹورنٹ گرا دیا گیا، لیکن مارگلہ ہلز میں ابھی 134 کے قریب ہوٹل، ریسٹورنٹس اور کھوکھے موجود ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ مونال ریسٹورانٹ کافیصلہ ہو گیا ہے، ہم 10قدم آگے آگئے ہیں، مونال ختم ہوگیا ہے،مونال غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھاسی ڈی اے کااس جگہ سے کوئی لینا دینا نہیں مارگلہ نیشنل پارک کو اسلام آباد وائلڈ مینجمنٹ بورڈ دیکھ رہا ہے ۔جسٹس جمال خان مندوخیل کااحسن بھون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ ختم ہو گئے ، آپ کہتے ہیں خود کھائیں گے نہ کسی کو کھانے دیں گے، مارگلہ ہلز محفوظ علاقہ ہے، وہاں ہر قسم کی تعمیرات کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر استفسار کیا کہ مارگلہ ہلز میں ابھی کتنی غیر قانونی تعمیرات باقی ہیں؟ مونال ریسٹورانٹ گرایا ہے یا باقی بھی گرائے ہیں۔ اس پر وکیل اسلام آباد میونسپل کارپوریشن نے بتایا کہ مارگلہ میں 80 سے 133 تعمیرات باقی ہیں۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم زیرالتواکیسز کو جلد سماعت کرکے بند کرنے کی طرف جارہے ہیں، باقی محکمے اپنا کام کریں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ نیشنل پارک کو وائلڈلائف مینجمنٹ بورڈ کی ملکیت قراردیا گیا ہے۔
جسٹس نعیم اخترافغان کاوکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مونال ریسٹورانٹ کے حوالہ سے فیصلہ کتنے لوگوں نے پڑھا ہے، وہ فیصلہ پڑھے بغیر بات نہ کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے اپنا کام نہیں کرتا کیا ہر معاملے کو ٹھیک کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے 7ججز بیٹھیں۔احسن بھون کاکہنا تھا کہ بینچ مجھے سن لے فیصلہ توبینچ نے کرنا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کااحسن بھون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک غیر موجود چیز کی جانب سے کیسے بطور وکیل پیش ہوسکتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیوں سی ڈی اے نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کیا، تمام تعمیرات غیر قانونی ہیں یہ حکم ہے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ کھوکھے لائنسی ہیں یا غیرقانونی ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے نے نوٹس کیسے دینا ہے، دوبارہ لیز دی ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ 1960کے نوٹیفیکیشن کے مطابق جہاں ہم بیٹھے ہیں یہ جگہ بھی نیشنل پارک میں شامل ہے توکیا سپریم کورٹ کو بھی گرادیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سارے اسلام آباد کی چیزیں ختم کرنی ہے توکردیں، سپریم کورٹ کوبھی ختم کردیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ کتنے کھوکھوں کے لائسنس دیئے ہیں۔ اس پر ڈی جی انوائرمنٹ سی ڈی اے کاکہنا تھا کہ 50کے قریب ہیں۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ درست تعداد بتائیں، یہ 55اور60بھی ہوسکتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کیا وہ لائسنس منسوخ کئے ہیں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ کوئی لائسنیسز کی فہرست دی تھی۔ جسٹس محمد مظہر کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے رپورٹ جمع کروائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد کی باتیں طے ہوچکی ہیں، ساری رپورٹس آئی ہیں، سی ڈی اے کا اختیار نہیں ہے۔جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ بڑے ہوٹل بند ہوتے ہیں توپھر کھوکھے ہی کھلتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا آرڈر صرف مونال کے لیے تھا، عدالت نے مارگلہ ہلز میں تعمیرات کے حوالے سے اصول طے کردیا ہے، سی ڈی اے اپنا کام کیوں نہیں کرتا؟
سی ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عدالتی احکامات میں کھوکھوں کو گرانے سے روک دیا گیا تھا۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ وہ آرڈر دکھائیں جس میں کھوکھے گرانے سے روکا گیا تھا،کوئی ایسا آرڈر موجود نہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ رپورٹ دیں کہ مارگلہ ہلز میں کتنے کھوکھے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جتنی بربادی خیبر پختونخوا میں مارگلہ ہلز میں ہوئی، سوچ نہیں سکتے، ناران جاکر دیکھیں وہاں کیا حال ہے۔آئینی بینچ نے سی ڈی اے سے مارگلہ ہلز میں غیر قانونی تعمیرات پر مفصل رپورٹ طلب کرلی۔عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔