سپریم کورٹ کی امریکی شہری اعتزازباب دین کی آئی ٹی یونیورسٹی کے قیام کے حوالہ سے پلاٹ کے لئے سی ڈی اے کوجمع کروائی گئی رقم واپس لینے کی ہدایت

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے امریکی شہری اعتزازباب دین کی جانب سے اسلام آباد میں آئی ٹی یونیورسٹی کے قیام کے حوالہ کُری روڈ پر پلاٹ کے لئے وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے)کوجمع کروائی گئی رقم واپس لینے کی ہدایت کرتے ہوئے ازخودنوٹس نمٹادیا۔ کیس کاتفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ 10جنوری 2019کے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق سی ڈی اے مدعا علیہ کورقم واپس ادا کرے گا۔

جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم کہاں سے کہاں چلے گئے، کیوں اتنے احکامات جاری کئے۔ جس دن سپریم کورٹ کاآرڈر ہوا تھا اس روزڈالر کی قیمت کے حساب سے پیسے جمع ہیں۔کا م کرنے کی مرضی ہے توجگہ کونہ دیکھیں، ایجوکیش سٹی میں زمین لے لیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ساری دنیا پاکستان میں کام کررہی ہے اورانشاء اللہ کرتی رہے گی، ایک آدمی چلاگیا توکیا ہوجائے گا۔ جبکہ جسٹس سید حسن اظہررضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ مدعا علیہ کاکاکنڈکٹ بھی کلین نہیں۔

جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیںکہ اگریونیورسٹی مفت تعلیم دیتی توہم یہی جگہ دینے کاحکم دیتے۔ میں یونیورسٹی پر رہائشی منصوبہ کوترجیح نہیں دوں گی۔ سی ڈی اے آج ضرور خوشی منائے۔ جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم بڑا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، اگر یونیورسٹی بنائیں گے تو طلباء سے فیس لیں گے اور منافع کمائیں گے، مفت تعلیم تونہیں دیں گے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان نے چیئرمین سی ڈی اے کی جانب سے اعتزازباب دین کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

سی ڈی اے کی جانب سے محمد منیر پراچہ ایڈووکیٹ جبکہ مدعا علیہ کی جانب سے سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ پیش ہوئے۔جسٹس امین الدین نے سلمان اسلم بٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پیسے ہمارے پاس پڑے ہیں یا آپ نے لے لئے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ہم نے کہا کہ سی ڈی اے اور مدعا علیہ متبادل پلاٹ کے معاملہ پر بات کریں ، بات ہوئی بھی ہے کہ نہیں ہوئی۔ سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے کوشش کی تاہم سی ڈی اے والے نہیں مانے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اسی قیمت میں کسی اورجگہ زمین دے دیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاسلمان اسلم بٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر ہم آپ کی درخواست منظور کرلیں توآپ خوش ہوں گے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کام کرنے کی مرضی ہے توجگہ کونہ دیکھیں، ایجوکیش سٹی میں زمین لے لیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا زمین کی خریداری کامعاہدہ منسوخ ہوا ہے اور رقم سپریم کورٹ کے پاس پڑی ہے۔جسٹس نعیم اخترافغان کاسلمان اسلم بٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی کون سی درخواست ہمارے پاس پڑی ہے۔ سلمان اسلم بٹ کاکہنا تھاکہ 10سال بعد کہتے ہیں کہ رقم واپس لے لیں اور واپس جائیں اگر یہ ریاست کی پالیسی ہے توٹھیک ہے۔ سلمان اسلم بٹ کاکہنا تھا کہ میں نے زمین پر چاردیواری بنائی،

اُس وقت راستہ نہیں تھا اب راست موجود ہے، ہم اسی جگہ پر یونیورسٹی بنانا چاہتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے کی درخواست خارج ہوئی اور نظرثانی بھی خارج ہوئی، مین آرڈر ابھی بھی فیلڈ میں موجود ہے اس کے بعد عدالت نے ثالث کے طور پر کام شروع کردیا، آپ کی رضامندی سے معاہدہ ختم ہوا، پیسے واپس ہوگئے تواورکیا چاہیئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاسلمان اسلم بٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ خود بھی جذباتی ہورہے ہیں اور ہمیں بھی کیوں جزباتی کررہے ہیں، ساری دنیا پاکستان میں کام کررہی ہے اورانشاء اللہ کرتی رہے گی، ایک آدمی چلاگیا توکیا ہوجائے گا۔ سی ڈی اے کے وکیل محمد منیر پراچہ کاکہنا تھا کہ 2019میں ڈالر کی قیمت کے حساب سے پیسے سپریم کورٹ میں جمع کروادیئے تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ مدعا علیہ منافع کے ساتھ اپنے پیسے واپس لے لے۔ سلمان اسلم بٹ کاکہنا تھا کہ یوروبانڈ میں پیسے دے دیں میں واپس چلاجاتا ہوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جوآج تک منافع ہوچکا ہے وہ آپ لے لیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم کہاں سے کہاں چلے گئے، کیوں اتنے احکامات جاری کئے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ پاکستان کے لئے اتنا بڑا موقع آیا تھا، مدعاعلیہ کو مسائل میں پھنسادیا۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاسلمان اسلم بٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کاکنڈکٹ بھی کلین نہیں۔ جسٹس محمدعلی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر ری لوکیشن نہیں چاہتے توپھر معاملہ ختم ہوگیا، آرڈر فیلڈ میں ہے کہ سی ڈی اے نے غیر ملکی کرنسی میں رقم جمع کروانی ہے۔

جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ نئی جگہ جانا چاہتے ہیں توجاسکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ری لوکیشن پرتیار ہیں توجاکرجگہ دیکھ لیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ مدعا علیہ نے سارے پیسے نہیں دیئے۔ محمد منیر پراچہ کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے لیز دینے کی مجاز نہیں تھی۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جس شخص نے لیز دی اُس کے خلاف کوئی کاروائی کی۔محمد منیر پراچہ کاکہنا تھا کہ ایک روپیہ لگایا اور تین روپے واپس لے گئے ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ پاکستان میں تعلیم بڑا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، اگر یونیورسٹی بنائیں گے تو طلباء سے فیس لیں گے اور منافع کمائیں گے، مفت تعلیم تونہیں دیں گے۔

جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ اگریونیورسٹی مفت تعلیم دیتی توہم یہی جگہ دینے کاحکم دیتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر 1-17کے لئے تیار ہوجائیں توہم وفاقی حکومت سے پوچھ لیتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ تھوڑی بہت بارگینگ ہوسکتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ میں یونیورسٹی پر رہائشی منصوبہ کوترجیح نہیں دوں گی۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میں حال ہی میں چین گیاوہاں پر ویرانے میں یونیورسٹی بنائی گئی تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر کرنا ہے توٹھیک ہے وگرنہ ہم کیس ختم کرتے ہیں۔

بینچ کے سربراہ امین الدین خان کاکہنا تھا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں آجائے گا۔ 10جنوری 2019کے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق سی ڈی اے مدعا علیہ کورقم واپس ادا کرے گا۔ بینچ نے معاملہ نمٹادیا۔ محمد منیر پراچہ کاکہنا تھا کہ 10جنوری 2019کے ڈالر ریٹ کے مطابق پیسے سپریم کورٹ میں جمع ہیں۔ مدعاعلیہ کے وکیل سلمان اسلم بٹ کاکہنا تھا کہ موجودہ ڈالر ریٹ کے مطابق پیسے اداکریں۔ اس پر محمد منیر پراچہ کاکہنا تھا کہ پھر 5سال اوررک جائیںڈالر کی قیمت 600روپے ہوجائے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 2019میں جمع کروائی گئی رقم کی سرمایاکاری کی گئی ہوگی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا جس دن سپریم کورٹ کاآرڈر ہوا تھا اس روزڈالر کی قیمت کے حساب سے پیسے جمع ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ سی ڈی اے آج ضرور خوشی منائے۔