بہاولپور میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کی لاشیں برآمد: ’چار سال کی بچی بیڈ کے نیچے سے زندہ ملی‘ ۔۔۔ اعظم خان

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور میں منگل کو ایک نجی ہاؤسنگ کالونی میں ایک گھر سے ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کی لاشیں ملی ہیں۔

بہاولپور پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کا مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں میاں بیوی اور اُن کے تین بچے شامل ہیں جبکہ ایک چار سال کی بچی زندہ ملی ہے۔

مرنے والوں میں 40 سالہ کاشف اور ان کی 36 سالہ اہلیہ سمیت 15 اور 13 برس کے دو بیٹے اور ایک نو سالہ بیٹا بھی شامل ہیں۔

منگل کی رات جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل آئی جی کامران خان نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس ابھی اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

واقعے کی اطلاع ایک ہمسائے نے ریسکیو کو دی تاہم پولیس کو منگل کے روز دن دو بج کر 29 منٹ پر خبر ملی جس کے بعد پولیس کے اعلی افسران جائے حادثہ پر پہنچے اور کرائم سین اور فرانزک کی ٹیم کو بھی طلب کر لیا گیا۔

بہاولپور کے تھانہ سمہ سٹہ کے ایس ایچ او اسد مستوئی نے بی بی سی کو بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے بعد پولیس نے اس واقعے کی ایف آئی آر لواحقین کی مدعیت میں درج کرلی ہے۔

ان کے مطابق اس گھر میں صرف چار برس کی ایک چھوٹی بچی زندہ رہ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چھوٹی بچی معمولی زخمی تھی۔

Bahawalpur

،تصویر کا ذریعہPunjab Police

ایف آئی آر میں کیا ہے؟

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

مقتول کاشف کے بھائی خرم کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ منگل کے روز صبح سے ان کا اپنے بھائی سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا جس کے بعد خرم نے اپنے بھائی کے ہمسائے اور کاروباری پارٹنر حاجی اقبال بھٹہ کو فون کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق حاجی اقبال نے خرم کو بتایا کہ دودھ والا اور گھر میں کام کرنے والی بھی دروازہ کھٹکھٹا کر واپس چلے گئے لیکن کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔

خرم نے پولیس کو بتایا کہ جب وہ اپنے بھائی اور ماموں کے ہمراہ کاشف کے گھر پہنچے تو حاجی اقبال اور پیٹرولنگ اہلکار گھر کے باہر موجود تھے۔

ایف آئی آر میں خرم کا کہنا ہے کہ جب وہ دیگر افراد کے ہمراہ گھر کے اندر داخل ہوئے تو ’بیڈروم میں ان کے بھائی، بھابھی اور ان کے تین بچوں کی خون میں لت پت لاشیں موجود تھیں جبکہ ان کی چار سالہ بھتیجی بے ہوشی کی حالت میں بیڈ کے نیچے سے ملی۔‘

خرم کے مطابق ’کاشف، ان کی بیوی اور دو بچوں کے سروں پر گولی کے نشانات تھے جبکہ نو سالہ عبدالوہاب کا گلہ گھونٹنے کے نشانات بھی نظر آئے۔‘

پولیس نے رات گئے بی بی سی کو بتایا کہ ’جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں، لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے اور ہر پہلو سے تحقیقات عمل میں لائی جائیں گی۔‘

Bahawalpur

،تصویر کا ذریعہPunjab Police

مقامی پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کو اس گھر سے ڈپریشن کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی گولیاں بھی ملی ہیں۔

کاشف کے بھائی خرم نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے بھائی ڈپریشن کا علاج کرنے والی گولیاں کھایا کرتے تھے۔ تاہم انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پولیس نے انھیں گھر کے اندر جانے نہیں دیا۔

خرم کا کہنا تھا کہ کے بھائی لوگوں کے مشوروں پر ڈپریشن کے علاج کے لیے گولیاں کھاتے تھے مگر اس کے باوجود ان کے بھائی بالکل ٹھیک ٹھاک تھے اور اپنا ایک چھوٹا کاروبار چلا رہے تھے۔ خرم کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے بھائی، بھابھی اور دو بھتیجوں کے جسموں پر گولیاں لگنے کے نشانات تھے۔

Punjab

،تصویر کا ذریعہPunjab Police

پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ گولیاں کس گن یا پستول سے اور کتنے فاصلے سے چلائی گئیں۔

خرم اور ان کے گھر کے دوسرے افراد بہاولپور سے تقریباً 45 کلومیٹر دور احمد پور شرقیہ میں رہتے ہیں جبکہ ان کے مقتول بھائی کاشف اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بہاولپور میں رہ رہے تھے۔

خرم کہتے ہیں کہ ہلاکت سے ایک رات قبل بھی کاشف کی ان کے والدین سے دو سے تین بار فون پر بات ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سوموار کی رات ان کی والدہ کی طبعیت خراب ہوئی تو کاشف خیریت معلوم کرنے کے لیے بار بار کال کر رہے تھے۔‘

’والدہ کی خرابی طبعیت کی وجہ سے میں اپنے بھائی سے بات نہیں کر سکا اور اس وقت والدہ کو ہسپتال لے جانے کے انتظامات کر رہا تھا۔‘

خرم کے مطابق ان کی زندہ بچ جانے والی بھتیجی کو زکام اور چھاتی میں انفیکشن کی وجہ سے بخار بھی ہے۔ ان کے مطابق ڈاکٹرز نے چھوٹی بھتیجی کو دوائی دی ہے جس کے بعد اب وہ سو رہی ہیں۔

خرم نے کہا کہ ’ہم چھ بہن بھائی تھے اور اب کاشف اور ان کی بیوی بچوں کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اب یہ بھتیجی ہمارے پاس ہی رہے گی۔‘

خرم کا کہنا تھا کہ ’ابھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ جب یہ بچی نیند سے بیدار ہو گی تو پھر اس کے سوالوں کا ہم کیا جواب دیں گے؟‘

بشکریہ : بی بی سی اردو