پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے گنجان آباد سنی اکثریتی علاقے بگن میں 22 نومبر کو جب مسلح لشکر کشی کرنے والے بازار کو آگ لگانے کے بعد واپس روانہ ہو رہے تھے تو وہ بگن کے ایک معروف خاندان کے افراد کو بھی اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
یہ خاندان علاقے میں معروف ’ڈاکٹرز کلینک‘ چلانے والے ڈاکٹر طلحہ محمد کا تھا۔ مسلح حملے آور ڈاکٹر طلحہ، ان کی اہلیہ، ان کی دو ڈاکٹر بیٹیاں ڈاکٹر یاسمین اور ڈاکٹر شیلا کے علاوہ ان کی بہن اور بھانجے فیاض گل کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ مسلح افراد نے ان تمام افراد کو الگ الگ گاڑیوں میں بٹھایا تھا۔
واضح رہے کہ ضلع کرم میں فرقہ وارانہ فسادات میں عموماً یہ رحجان بن چکا ہے کہ حملہ آور اپنے مخالف قبیلے اور فرقے کے افراد کو اپنے ساتھ اغوا کر کے لے جاتے ہیں تاکہ مخالفین کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے ان کا پلڑا بھاری رہے۔
گذشتہ ماہ نومبر کے آخری عشرے میں کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے بعد شروع ہونے والی کشیدگی کے دوران مختلف واقعات میں 130 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 170 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ اور کئی دن کی حکومتی کوششوں اور سیاسی جرگے کی مداخلت کے بعد علاقے میں جنگ بندی ممکن ہو پائی ہے۔
بلا تفریق سب کا ’مسیحا خاندان‘
ضلع کرم میں فرقہ وارانہ تقسیم پائی جاتی ہے۔ بعض ڈاکٹرز کے مطابق چونکہ پاڑہ چنار شیعہ اکثریتی علاقہ ہے اس لیے وہاں ہسپتال میں زیادہ تر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہی علاج معالجے کے لیے آتے ہیں۔ جبکہ سنی اکثریتی صدہ کے ہسپتال میں عموماً سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے علاج کے لیے آتے ہیں۔
بگن کے رہائشی اور 30 سال سے کرم میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر طلحہ محمد سنہ 2013 میں اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل پاڑہ چنار اور علی زئی کے سرکاری ہسپتالوں میں خدمات انجام دیتے تھے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں مگر انھوں نے علاج میں کبھی کسی فرقے کی بنیاد پر تقسیم نہیں کی تھی اور ہر مریض کا علاج کرتے تھے۔ وہ اپنے کیریئر میں تشدد کے ادوار میں بھی ہسپتالوں میں کام کرتے رہے تھے۔
اس کے بعد ڈاکٹر طلحہ نے بگن کے علاقے میں اپنا کلینک قائم کر رکھا تھا۔
ان کے 11 بچوں میں سے زیادہ تر نے اپنے والد کے پیشے کو اپناتے ہوئے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی اور اپنے والد کی خواہش کے مطابق بہتر روزگار کے مواقع چھوڑ کر کرم میں ہی مریضوں کے علاج معالجے میں ان کی مدد کرتے رہے۔
حملہ آوروں کی جانب سے اغوا کی جانے والی ان کی بیٹی ڈاکٹر یاسمین نے ریڈیالوجی میں سپیشلائیزیشن کے ساتھ ساتھ گائنی میں ڈپلومہ کر رکھا ہے جبکہ ڈاکٹر شیلا کے پاس فزیوتھراپی میں مہارت تھی۔
’اپنی جان دے کر بھی ڈاکٹر طلحہ کے خاندان کی حفاظت کروں گا‘
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
مسلح حملہ آور جب بگن سے ڈاکٹر طلحہ کے خاندان کے افراد کو اغوا کر کے لے جا رہے تھے تو شیعہ اکثریتی علاقے علی زئی سے گزرتے ہوئے ان کی اہلیہ اور بیٹی ڈاکٹر شیلا نے اغوا کرنے والوں سے پوچھا کہ ’ہمیں کدھر لے کر جارہے ہو؟‘
انھوں نے درخواست کی کہ ’ہمیں کہیں بھی مت لے کر جاؤ، ہمیں علی زئی میں حاجی عقیلو کے گھر پر چھوڑ دو۔‘
اکثریتی شیعہ طوری قبیلے سے تعلق رکھنے والے عقیل حسین عرف حاجی عقیلو دراصل علاقے کی ایک امن پسند شخصیت ہیں جو بلاتفریق لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شیلا کی یہ درخواست اس گاڑی میں موجود اغوا کرنے والوں نے تسلیم کر لی اور ان کو علی زئی کے گاؤں حاجی کلے زئی میں حاجی عقیلو کی رہائش گاہ پر چھوڑ دیا ہے۔
جب ڈاکٹر شیلا اور ڈاکٹر طلحہ کی اہلیہ کو حاجی عقیلو کی رہائش گاہ پر پہنچایا گیا تو حاجی عقیلو حیران ہوئے اور اغواکاروں پر غصہ کرتے ہوئے پوچھا ’یہ تم لوگوں نے کیا کیا ہے؟‘
’یہ وہ خاندان ہے جو ہر ایک کو، چاہے وہ سنی ہو یا شیعہ، بہترین علاج معالجہ دیتا ہے۔ ان کے کلینک پر شیعہ کا علاج تو مفت ہوتا ہے۔ (آپ کو) ایسا کبھی نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘
اس بارے میں خود حاجی عقیلو نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اغوا کاروں سے پوچھا ’ڈاکٹر طلحہ، ڈاکٹر یاسمین اور ان کے خاندان کے دیگر لوگ کدھر ہیں؟ وہ بھی میری حوالے کرو۔ میں ان کی حفاظت اپنی جان دے کر بھی کروں گا۔‘
مگر اغواکاروں کو دیگر افراد کے بارے میں علم نہیں تھا۔
حاجی عقیلو کو فوراً شک ہوا کہ دیگر کو بھی اغوا کیا گیا ہوگا۔ ’میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر ڈاکٹر شیلا اور ڈاکٹر طلحہ کی اہلیہ سے کہا کہ وہ اب اپنے بھائی، اپنے بزرگ عقیلو کی پناہ میں ہیں اور سب کچھ میری ذمہ دار ہے۔‘
دباؤ کے باوجود حاجی عقیلو نے ڈاکٹر طلحہ کی باقی فیملی تک رسائی کیسے حاصل کی
حاجی عقیلو کے بقول ڈاکٹر شیلا اور ڈاکٹر طلحہ کی اہلیہ ان کی پناہ میں تھیں تو اس وقت انھوں نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ دیگر فیملی بشمول خود ڈاکٹر طلحہ، ان کی بیٹی ڈاکٹر یاسمین، بہن اور بھانجے فیاض گل کا پتا لگائیں گے۔
مگر جب علاقے بھر میں لوگوں کو پتا چلا کہ ڈاکٹر طلحہ کی اہلیہ اور ڈاکٹر شیلا ان کی پناہ میں ہیں تو ’مجھ پر دباؤ آنے لگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے کہا جانے لگا کہ ان دونوں کو ان لوگوں کے حوالے کر دوں تاکہ وہ ان کو تبادلے میں استعمال کرسکیں۔‘
’مگر میں نے دوٹوک پیغام بھیجا کہ اسلامی، قبائلی روایات کے مطابق یہ دونوں اب میری پناہ میں ہیں اور بھلے میری جان چلی جائے۔ میری برادری، بیٹے مارے جائیں، ان کی حفاظت میں اپنی جان سے بڑھ کر کروں گا۔‘
حاجی عقیلو کہتے ہیں کہ ’میں نے سارا دباؤ نظر انداز کر دیا اور ڈاکٹر طلحہ اور دیگر کا پتا کرنا شروع کر دیا۔‘
بگن واقعے سے انھیں اس گاڑی کا پتا چلا جس میں ڈاکٹر یاسمین کو بٹھایا گیا تھا۔ اس گاڑی والے سے پوچھنے پر کہ ڈاکٹر یاسمین کدھر ہیں، انھیں یہ معلوم ہوا کہ اغواکاروں نے انھیں کہاں پہنچایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پھر میں نے ان لوگوں سے رابطہ قائم کیا جنھوں نے ڈاکٹر یاسمین کو رکھا ہوا تھا۔ وہاں پر ڈاکٹر یاسمین اور ڈاکٹر طلحہ کی بہن بھی تھیں۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ ڈاکٹر ہمارے محسن ہیں۔ یہ اس وقت لوگوں کا علاج کرتے ہیں جب وہ مر رہے ہوتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کبھی انھوں نے سنی ہونے کے باوجود سنی شیعہ کی تفریق رکھی؟ کیا کبھی ڈاکٹر یاسمین نے علی زئی کے لوگوں کا علاج کرنے سے منع کیا؟ تو جواب ملا کہ نہیں ایسا نہیں ہوا۔‘
حاجی عقیلو نے مطالبہ کیا کہ ’ڈاکٹر یاسمین اور ڈاکٹر طلحہ کی بہن کو میرے حوالے کر دو اور ساتھ میں ڈاکٹر طلحہ اور اس کے بھانجے فیاض گل کی تلاش میں میری مدد کرو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے وہ لوگ نہیں مان رہے تھے مگر ان لوگوں پر دباؤ کو بڑھایا گیا۔ اس کے لیے میں نے حکومت والوں سے بھی بات کی۔ سب سے کہا کہ باقی جو کچھ ہوگا، وہ ہوگا مگر مسیحا کے ساتھ یہ سلوک برداشت نہیں ہوگا۔ تو پھر یہ فیصلہ ہوا کہ وہ ڈاکٹر یاسمین اور ڈاکٹر طلحہ کی بہن کو میرے حوالے کر دیں گے۔‘
حاجی عقیلو کہتے ہیں کہ کچھ دن قبل ڈاکٹر یاسمین اور ڈاکٹر طلحہ کی بہن کو میرے حوالے کیا گیا تھا۔ اس موقع پر ’دونوں بہت ڈری ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر یاسمین رو، رو کر مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ ان کا قصور کیا تھا، ان کی غلطی کیا تھی؟ وہ مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ میں نے تو علی زئی کے لوگوں کی خدمت کی تھی، میرے والد نے بھی کی تھی۔‘
مگر حاجی عقیلو کے پاس ان کے سوالوں کے جواب نہیں تھے۔
ڈاکٹر طلحہ کا کچھ پتا نہ چل سکا
حاجی عقیلو نے ڈاکٹر طلحہ کی بیٹی سے وعدہ کیا ہے کہ ’کچھ بھی ہو جائے، میں ان کے والد کو تلاش کروں گا اور جو کچھ ہو سکا کروں گا۔‘
’مگر مجھے افسوس ہے کہ میں ان کو تلاش نہیں کر پایا ہوں۔ ان کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ کچھ متضاد اطلاعات مل رہی ہیں مگر وہ مصدقہ نہیں ہیں جبکہ سیز فائر کے بعد فیاض گل کی لاش کو حوالے کر دیا گیا ہے۔‘
حاجی عقیلو کہتے ہیں کہ ’لڑائی کے دوران میں نے ان کو کہا کہ اگر وہ چاہیں تو میں خود ان کو اپنے بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں کی حفاظت میں پشاور یا جہاں وہ چاہیں چھوڑ سکتا ہوں۔‘
’مگر انھوں نے لڑائی کے دوران بہتر سمجھا کہ میرے گھر پر رہیں۔ سیز فائر ہوا تو میں نے ان کو ان کے قریبی رشتہ داروں کے حوالے کر دیا۔‘
حاجی عقیلو کا کہنا تھا کہ بگن حملے کے دوران ڈاکٹر طلحہ کے کلینک اور گھر کو تباہ کر دیا گیا۔ اس کے اندر ایک جدید فارمیسی تھی جو علاقے کے لوگوں کی ضرورت کو پورا کرتی تھی۔
مگر ’اب وہاں کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ معلوم نہیں اب لوگوں کو جب اپنی ماں، بہن، بیٹی کے علاج کی ضرورت پڑے گی تو وہ کہاں جائیں گے؟‘
ان کا خیال ہے کہ ’سنی اور شیعہ دونوں طرف صرف چار، پانچ فیصد انتہا پسند ہیں اور وہ لڑائی کر رہے ہیں۔‘
حقیقت یہ ہے کہ ’اکثریت امن اور بھائی چارہ چاہتی ہے۔‘
بشکریہ : بی بی سی