قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی تعلیم کا اساتذہ کو مزدور سے کم تنخواہ دینے پر شدید برہمی کااظہار

اسلام آباد(صباح نیوز)قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی  برائے تعلیم میں انکشاف ہواہے کہ وفاقی دارالحکومت کے سرکاری تعلیمی اداروں میں ڈیلی ویجرز اساتذہ کو 28ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جارہی ہے ،ارکان کمیٹی نے اساتذہ کو مزدور سے کم تنخواہ دینے پر شدید برہمی کااظہار کیا۔کمیٹی نے مسئلے کے حل کے لیے ممبر شازیہ ثوبیہ، فیڈرل بورڈ اور این جی او کے نمائندے پر مشتمل ذیلی کمیٹی بنا دی جو ڈیلی ویجر اساتذہ کی تنخواہ پر ایک ماہ میں رپورٹ پیش کریگی۔چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختارنے کہاکہ مستحق بچوں کے لیے پبلک سیکٹریونیورسٹیوں میں سیٹیں ہیںنجی یونیورسٹیوں کو پابند کرنے کی ضرورت ہے ،پبلک سیکٹریونیورسٹیاں صرف دو ہزار فیس بڑھائی تو سڑکیں بند کر دی گئیں مگر پرائیویٹ یونیورسٹیاں لاکھوں فیس لے رہی ہیں۔

قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی  برائے تعلیم کا اجلاس قائمقام چیئرمین اسلم گھمن کی زیر صدارت فیڈرل بورڈ کے آفس میں ہوا۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی اعظم الدین زاہد نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی چیرمین کمیٹی  نے  رکن کمیٹی اسلم گھمن سے صدارت کی درخواست کی جس پررکن کمیٹی اسلم گھمن نے قائمقام چیئرمین کے حیثیت سے کمیٹی کی صدارت کی اجلاس میں تمام اراکین کی گزشتہ منٹس کی منظوری  دی گئی رکن شازیہ صوبیہ نے منٹس میں ان کے نکات نہ شامل کرنے پر اعتراض کیا ۔قائمقام چیئرمین اسلم گھمن نے وزارت تعلیم کی سر زنش کرتے ہوئے کہاکہ شازیہ صوبیہ کی تجاویز کو میٹنگ  ایجنڈے میں شامل ہونا چاہیے تھا جب کام کرنا ہوتا ہے رات کے بارہ بجے بھی ادارے کھل جاتے ہیں قومی معاملات کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی۔

اراکین کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ میٹنگ کے منٹس اور اس کے بعد جواب ضرور لینا چاہیے رپورٹ ان ریکمنڈیشن  کے نام سے ایکشن اور عملدرآمد پر رپورٹ پیش کی جائے ۔کمیٹی میں نجی اسکولوں اور فلاحی اداروں کی جانب سے چلانے جانے والے اسکولوں میں اساتذہ کی کم تنخواہوں کا معاملہ زیربحث آیا۔آغا رفیع اللہ  نے کہاکہ جب آئین پاکستان کے تحت کم از کم تنخواہ طے ہو گئی تو اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے، اگر میرا موضوع کم ازکم تنخواہ اور مزدوری ہے تو اس پر یکساں عملدرآمد کراوں گا، کمپنی مالکان اپنی مرضی کی تنخواہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں ورکر خوش ہے،

قائمقام چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ یہاں گھوسٹ سکول اور ٹیچر بھی نکلے ہیں،  اگر کوئی محنت کر رہا ہے اور پڑھا رہا ہے تو تنخواہ مناسب اور وقت پر ملنی چاہیے،  پنجاب میں اسکول پرائیویٹ کمپنی کے حوالے کیے گئے تو چھ چھ ماہ تنخواہ نہیں ملی، ممبر کمیٹی ذولفقار علی بھٹی  نے کہاکہ ایسے قوانین بھی نہیں بنا سکتے کہ ہمارے ادارے ان پر عملدرآمد نا کر سکیں،جیسے وزٹنگ کے اساتذہ کی تنخواہ ہوتی ہے اس طرح سے بھی تنخواہ سیٹ ہو سکتی ہے،ممبر کمیٹی مہتاب اکبر راشدی نے کہاکہ پرائیویٹ اداروں نے اپنی مناپلی بنا رکھی ہے،ممبر کمیٹی ذوالفقار علی بھٹی نے کہاکہ پنجاب کے تعلیمی معیار پر چیئرمین کمیٹی نے بات کی اور پنجاب تعلیم میں باقی صوبوں سے پیچھے نہیں، پنجاب میں تعلیمی نظام پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن جو کہ حکومتی ادارہ ہے اور کمپنی نہیں، ممبر کمیٹی آغا رفیع اللہ اور سیکریٹری تعلیم کے درمیان تکرار ہوئی ۔

ڈائریکٹر اکیڈمک نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ڈیلی ویجرز اساتذہ کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ 28 ہزار ہے اور این جی او ان کو لیپ ٹاپ اور سہولتیں دے رہی ہے، 266  اساتذہ پارٹ ٹائم کام کر رہے ہیں سکول ایک ہفتے میں 23 گھنٹے کام کرتے ہیں 10 ہفتوں کی پیڈ چھٹیاں دی جاتی ہیں جو کہیں پر بھی نہیں ہوتا اسٹاف کی فلاح اور انکو لیپ ٹاپس بھی دیے جاتے ہیںقائم مقام چیئرمین کمیٹی نے ڈائریکٹر رفعت کو بریفنگ سے روک دیا یہاں آپ کو تعریف کرنے کو نہیں کہا گیا ۔آغا رفیع اللہ نے کہاکہ ڈائریکٹر اکیڈمک فیڈرل بورڈآپ یہیں رک جائیں کیونکہ آپ این جی اوز کا دفاع کر رہی ہیں،

 ڈائریکٹر اکیڈمک نے کہاکہ ہمیں بات مکمل کرنے دیں، آغارفیع اللہ نے کہاکہ میری غلطی ہے کہ ڈیلی ویجر اساتذہ کی تنخواہ کی بات کر رہا ہوں اور آپ دفاع کر رہے ہیں۔وفاقی سیکرٹری تعلیم نے بتایاکہ گریڈ 16 کے ریگولر ٹیچر کی بنیادی تنخواہ 40 ہزار ہے،ریگولر اساتذہ الیکشن ڈیوٹی سمیت اضافی وقت اور تمام ڈیوٹیز کرنے کا پابند ہے ڈیلی ویجر یا وزڑنگ اساتذہ تو کوئی اضافی ڈیوٹی نہیں کرتا، قائمقام چیئرمین نے کہاکہ ممبر کمیٹی شازیہ ثوبیہ، فیڈرل بورڈ اور این جی او کے نمائندے پر مشتمل ذیلی کمیٹی بنا رہے ہیں، ذیلی کمیٹی ڈیلی ویجر اساتذہ کی تنخواہ پر ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے۔

قائمہ کمیٹی میںممبر کمیٹی آغا رفیع اللہ کا مستحقین کے لیے یونیورسٹیوں میں خصوصی نشستیں رکھنے کا بل زیر بحث  آیا ۔آغارفیع اللہ نے کہاکہ جو بچے قابلیت رکھتے ہیں مگر یونیورسٹی کی تعلیم افورڈ نہیں کر سکتے ان کو یونیورسٹی میں خصوصی نشستیں ملنی چاہیے،قابلیت رکھنے والے معزور بچوں کو بھی یونیورسٹیز میں ترجیحی بنیادوں پر داخلہ ملنا چاہیے۔چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختارنے کہاکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے پاس اختیارات ہیں، جو بچے میرٹ پر پورا اترتے ہیں مگر تعلیم کے اخراجات نہیں برداشت کر سکتے تو ان کے لیے پبلک سیکٹر میں سیٹیں ہیں،  نجی یونیورسٹیوں کو پابند کرنے کی ضرورت ہے کہ مستحق اور قابل بچوں کو ترجیح دے، ہم نے صرف دو ہزار فیس بڑھائی تو سڑکیں بند کر دی گئیں مگر پرائیویٹ یونیورسٹیاں لاکھوں فیس لے رہی ہیں،

لمز اور آغا خان 25،25 لاکھ فیس لیتے ہیں۔ ممبر کمیٹی مہتاب اکبر نے کہاکہ  سی ایس آر کے تحت بڑی کمپنیوں کو معزور اور مستحق بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھانا چاہیے، سیکریٹری تعلیم محی الدین وانی نے کہاکہ اسکالر شپ اسکیم کے اندر 25 فیصد کوٹا مستحق بچوں کے لیے مختص ہونا چاہئے۔قومی اسمبلی قائمہ تعلیم کا فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین میرٹ پر لگانے کی ہدایت کردی ۔قائمقام چیئرمین کمیٹی اسلم گھمن نے کہاکہ ایف پی ایس سی کا چیئرمین سیاسی بھرتی نہیں ہونا چاہیے، چقومی اسمبلی قائمہ کمیٹی تعلیم کے 20ممبران قومی اسمبلی ایف پی ایس سی چیئرمین میرٹ پر لگانے پر زور دیتے ہیں۔